1. کیا کوئی شخص کسی سید زادی سے اس کے برے اعمال کا جواب طلب کرسکتا ہے ؟
2. کیا اگر کسی کپڑے پر احتلام کی منی خشک ہو جائے تو منی کو کھرچنے سے کپڑا پاک ہو جائے گا یا کپڑے کو دھونا ضروری ہے؟
1۔ یہ سوال واضح نہیں ، سائل کا منشا ء کیا ہے ؟وضاحت کرکے دوبارہ پوچھا جائے۔
2۔ واضح رہے کہ کپڑے پر لگی احتلام کی منی اگرگاڑھی ہواور خشک ہو چکی ہو ،تو اس کورگڑ کر یا کھرچ کر دور کرنے سے کپڑا پاک ہو جاتا ہے،اوراگر پتلی ہو اور خشک ہو چکی ہو تو اس کا دھوناضروری ہے۔ صورتِ مسئولہ میں اس زمانہ میں ضعف طبائع کی وجہ سے منی عام طور پر رقیق ہوتی ہے، اس لیے خشک ہونے کی صورت میں کھرچنا کافی نہیں، بلکہ دھو کر پاک کرنے ضروری ہے۔
امداد الفتاوی میں ہے:
"سوال:منی جواس زمانہ میں ضعف طبائع کے سبب رقیق ہو تی ہے،اگر کپڑے پر لگ کر سوکھ جائےتوفرک سےپاک ہو جائے گی یا غسل کی ضرورت ہے؟اور مذی اگر کپڑےکو لگ جائے،تو فرک کافی ہے یا غسل لازم ہے؟
جواب:
في رد المحتار: والنص ورد في مني الرجل ومني المرأة ليس مثله لرقته وغلظ مني الرجل، والفرك إنما يؤثر زوال المفروك أو تقليله وذلك فيما له جرم، والرقيق المائع لا يحصل من فركه هذا الغرض فيدخل مني المرأة إذا كان غليظا ويخرج مني الرجل إذا كان رقيقا لعارض اھ
وعن هذا قال شمس الأئمة الحلواني: مسألة المني مشكلة؛ لأن كل فحل يمذي ثم يمني إلا أن يقال: إنه مغلوب بالمني مستهلك فيه فيجعل تبعا. اهـ
( کتاب الطھارۃ،باب الانجاس،ج:1،ص:313،312،ط:سعید)
روایت ِاولی سے معلوم ہواکہ منی رقیق فرک سے پاک نہ ہوگی،اورروایتِ ثانیہ سے معلوم ہوا کہ مذی کا مطلقاًدھونا واجب ہے۔"
(امداد الفتاوی،ج:1،ص:133،ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)
بدائع الصنائع میں ہے:
"(ومنها) : الفرك، والحت بعد الجفاف في بعض الأنجاس في بعض المحال، (وبيان) هذه الجملة: إذا أصاب المني الثوب وجف وفرك طهر استحسانا، والقياس أن لا يطهر إلا بالغسل، وإن كان رطبا لا يطهر إلا بالغسل، والأصل فيه ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال لعائشة رضي الله عنها: «إذا رأيت المني في ثوبك إن كان رطبا فاغسليه، وإن كان يابسا فافركيه» ؛ ولأنه شيء غليظ لزج لا يتشرب في الثوب إلا رطوبته، ثم تنجذب تلك الرطوبة بعد الجفاف فلا يبقى إلا عينه، وأنها تزول بالفرك بخلاف الرطب؛ لأن العين وإن زالت بالحت فأجزاؤها المتشربة في الثوب قائمة، فبقيت النجاسة۔"
(کتاب الطھارۃ،فصل، بیان ما یقع بہ التطھیر،ج،1 ،ص،84،ط،دار الکتب العلمیۃ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144508100316
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن