بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سادات اور اعوان برادری کو زکوۃ دینے کا حکم


سوال

سادات اور اعوان برادری کو زکوۃ دینے کے متعلق شریعت میں کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ جس مسلمان کے پاس اس کی بنیادی ضرورت  و استعمال ( یعنی رہنے کا مکان ، گھریلوبرتن ، کپڑے وغیرہ)سے زائد،  نصاب کے بقدر   (یعنی صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا ان میں سے کسی ایک کی موجودہ قیمت  کے برابر)   کسی بھی قسم کا مال یا سامان موجود  نہ ہو  اور وہ سید/ عباسی نہ ہو، وہ زکات کا مستحق ہے،اس کو زکات دینا اور اس کے  لیے ضرورت کے مطابق زکات لینا جائز ہے۔

بصورتِ  مسئولہ سیّد برادری کو زکات دینا جائز نہیں ہے،  اور اعوان برادری کا سلسلہٴ نسب اگر  بہ واسطہ محمد بن الحنفیہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے (جیسا کہ مشہور  ہے) اور اعوان برادری کے پاس اس سلسلہ میں مستند شجرہٴ نسب بھی موجود ہے،  تو  یہ برادری سادات سے شمار ہوگی،  اور ان کا آپس میں ایک دوسرے کو زکات دینا جائز نہ ہوگا اور نہ ہی کسی دوسری برادری کا انہیں زکات دینا جائز ہوگا،  اوراگر یہ محض سنی سنائی یا مشہور کی ہوئی بات ہے تو ایسی صورت میں اعوان برادری کے اہل علم حضرات کو چاہیے کہ وہ اپنی برادری کے متعلق تحقیق کریں کہ یہ برادری واقعتاً سادات سے ہے یا نہیں؟ اور اگر سید نہیں ہے اور نہ ہی صاحب نصاب ہے تو زکات کا مستحق ہونے کی وجہ سے  ایک دوسرے کو بھی زکات دے سکتے ہیں اور دوسری برادری کا بھی انھیں زکات دینا جائز  ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے

"ولا یدفع إلی بني ھاشم وھم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقیل وآل الحارث بن عبد المطلب کذا فی الھدایة، ویجوز الدفع إلی من عداھم کذریة أبي لھب ؛ لأنھم لم یناصروا النبي صلی اللہ علیہ وسلم کذا فی السراج الوھاج." 

( کتاب الزکاة، الباب السابع فی المصارف، 1: 189، ط: المکتبة الحقانیة) 

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144209201171

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں