کیا آ ج کل کے افراتفری والے دور میں ایک سید اپنی زکاۃ دوسرے سید کو دے سکتا ہے، جب کہ کوئی دوسری صورت نہ نکلتی ہو؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: ’’یہ صدقات (زکاۃ اور صدقاتِ واجبہ ) لوگوں کے مالوں کا میل کچیل ہیں، ان کے ذریعہ لوگوں کے نفوس اور اموال پاک ہوتے ہیں اور بلاشبہ یہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیے اور آلِ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیے حلال نہیں ہے‘‘۔ «إن هذه الصدقات إنما هي أوساخ الناس، وإنها لا تحل لمحمد، ولا لآل محمد»۔ (صحيح مسلم (2/ 754)
لہذا سید یا غیر سید کا سید کو زکاۃ دینا کسی صورت جائز نہیں ہے، اگر سید غریب اور محتاج ہے تو صاحبِ حیثیت مال داروں پر لازم ہے کہ وہ سادات کی امداد زکاۃ اور صدقات واجبہ کے علاوہ رقم سے کریں اور ان کو مصیبت اور تکلیف سے نجات دلائیں، یہ بڑا اجروثواب کا کام ہے اور حضور اکرم ﷺ کے ساتھ محبت کی دلیل ہے۔ اور ان شاء اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کی شفاعت کی قوی امید کی جاسکتی ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا قول منقول ہے: "ارقبوا محمداً في أهل بيته". یعنی رسولِ اقدس ﷺ کے اہلِ بیت کا لحاظ وخیال کرکے نبی کریم ﷺ کے حق کی حفاظت کرو۔
اگر صاحبِ نصاب سید کی اپنی گنجائش نہ ہو کہ وہ ضرورت مند سید کی زکات کے علاوہ حلال مال سے امداد کرسکے اور اس سے خود کوئی صورت نہ بن سکے تو دردِ دل رکھنے والے کسی صاحبِ خیر کو اس نیک کام کی طرف متوجہ کردے کہ وہ سید کی عزتِ نفس کا خیال رکھتے ہوئے اس کی ضرورت پوری کردے۔
البحر الرائق شرح كنز الدقائق (2/ 265):
"(قوله: وبني هاشم ومواليهم) أي لايجوز الدفع لهم؛ لحديث البخاري: «نحن - أهل بيت - لاتحل لنا الصدقة»، ولحديث أبي داود: «مولى القوم من أنفسهم، وإنا لاتحل لنا الصدقة»". فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144109201687
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن