اگر سید گھرانے سے لڑکی کا رشتہ آئے اور لڑکی کے گھر والے صرف دوری یاکسی سبب بنا پر انکار کر دیں جس سے سید گھرانے کو اذیت پہنچے تو کیا اس وجہ سے ان کو اذیت پہنچانا جائز ہے؟
واضح رہے کہ شریعت نے لڑکی اور اس کے اولیاء کو اپنی مرضی سے نکاح کرنے کا اختیار دیا ہے ،جس میں ان پر کسی قسم کا جبرنہیں ،خواہ اس سے کسی کو تکلیف پہنچے یا نہ پہنچے،لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر سید گھرانے سے لڑکی کا رشتہ آیا اور لڑکی والوں نے کسی عذر کی بنا پر قبول نہیں کیا تو یہ ان کاحق ہے،جو شریعت نے ان کو دیا ہے،اس لیے سید گھرانے کو اپنے لیے اس انکار کو باعثِ تکلیف سمجھنا ہی نہیں چاہیے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(فنفذ نكاح حرة مكلفة بلا) رضا (ولي) والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه وما لا فلا."
( کتاب النکاح،باب الولي،3/ 55، ط: سعید)
بدائع الصنائع میں ہے:
"الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلاً بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض."
(کتاب النکاح، فصل ولایة الندب والاستحباب في النکاح،2/ 247، ط: سعید )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144402101309
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن