بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سادات برادری کو زکوۃ دینے کا حکم


سوال

 حضرت علی بن غازی عباس علمدار بن عبداللہ بن حسن بن حمزہ اول بن علی بن جعفر بن طیار بن حمزہ ثانی بن قاسم یعلی بن عون قطب شاہ بن محمد علی عرف ہندگلگان ،کندان القاب عرب کندلان بن عون عرف عدی بن طور خان بن کمر بندبن مانسی خان طور خان بن مانسی خان بن محمد صادق بن ماسرابن اللہ دتہ بن پھرا خان بن نیک محمد بن منگا خان بن فلک شیر بن سلیم خان بن جیون خان بن اسلام عرف جیسک بن ملا بن جیون بن رہا بن مہرا بن گولا بن فتح نور بن فیض اللہ بن فتح محمدبن میاں محمد، یہ شجرہ نسب ہمارے فیملی کے ایک ممبر نے عدالت سے حاصل کیا ہے، اور اس کے مطابق ہماری فیملی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے خاندان سے ملتی ہے، کیا ہم اس نسب کے مطابق اپنے خاندان میں زکوۃ دے سکتے ہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سیّد برادری کو زکوٰۃ  دینا جائز نہیں ہے، اور سوال میں ذکر کردہ شجرہ نسب کے مطابق مذکورہ برادری کا سلسلہٴ نسب بواسطہ عباس رضی اللہ عنہ کے حضرت علی رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے، اور خاندانِ علی رضی اللہ عنہ سادات برادری ہے، لہذا جب اس سلسلہ میں مذکورہ برادری کے پاس مستند شجرہٴ نسب موجود ہے، تو یہ برادری سادات میں  سے شمار ہوگی، اور ان کا آپس میں ایک دوسرے کو زکوٰۃ دینا جائز نہ ہوگا اور نہ ہی کسی دوسری برادری کا انہیں زکوٰۃ دینا جائز ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولا یدفع إلی بني ھاشم وھم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقیل وآل الحارث بن عبد المطلب کذا فی الھدایة، ویجوز الدفع إلی من عداھم کذریة أبي لھب ؛ لأنھم لم یناصروا النبي صلی اللہ علیہ وسلم کذا فی السراج الوھاج."

( کتاب الزکاة، الباب السابع فی المصارف، 1: 189، ط: المکتبة الحقانیة) 

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144309101002

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں