بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صدقے کے لیے الگ کی ہوئی رقم بیوی کے جیب خرچ کے لیے دینے کا حکم


سوال

میں نے اپنی ماہانہ تنخواہ میں سےثواب کی نیت سے دس فیصد اللہ کی راہ میں اور پانچ فیصد والدہ اور بیوی کو بطور جیب خرچ دینے کی نیت کی ہوئی ہے، مجھے آپ حضرات سے   دو مسئلے معلوم کرنے ہیں:

1۔ایک یہ کہ میرے اوپر میری والدہ کا قرضہ ہے، جو میں  نے ان کو اداکرنا  ہے، میرے پاس اضافی پیسوں کی گنجائش نہیں ہوتی  کہ یہ قرض اتار سکوں تو کیا جو پیسے میں انہیں بطورِ جیب خرچ دیتا ہوں اس میں ہی قرض ادا کرنے کی نیت بھی کرسکتا ہوں؟ اس سے میرا ثواب کی نیت سے دینا ختم تو نہیں ہو جائے گا کہ وہ  عند اللہ صرف ادائیگی قرض شمار ہوتا رہے؟

2۔دوسرا مسئلہ یہ کہ جو دس فیصد ہے وہ میں ہر مہینے ایک مدرسے میں راشن کا سامان اور اسی طرح کے دوسرے کاموں میں خرچ کرتا ہوں، بعض اوقات  مہینے  کے آخر  تھوڑی  رقم   بچ جاتی ہے تو کیا اس بچی ہوئی رقم میں سے میں اپنی بیوی کا جیب خرچ بڑھا سکتا ہو؛ کیوں کہ یہ دس فیصد رقم میں نے الگ سے مختص کی ہوئی ہے اور پانچ فیصد والی الگ، تو دس فیصد والی رقم سے اگر میں کچھ گھر والوں کو دے دوں تو برابر ثواب رہے گا؟ 

جواب

 سب سے پہلے   یہ   بات واضح  رہنی چاہیے کہ قرض کی  ادائیگی  مقروض پر واجب ہوتی ہے، جب کہ نفلی صدقہ  کی حیثیت مستحب عمل کی ہے، شریعت کا اصول ہے کہ واجب  و غیر واجب               (  مستحب  وغیرہ ) میں   پہلے واجب ادا کیا جائے،  اگر چہ غیر واجب پہلے ادا کرنے سے ادا ہوجائے گا، تاہم ضابطہ کے مطابق پہلے واجب کی ادائیگی کرنی  چاہیے، لہذا صورت ِ  مسئولہ  میں سائل پر جب اپنی والدہ کا قرض  ہے تو  اس کو چاہیے کہ  سب سے پہلے اس کا قرض اداکرے اس کے بعد نفلی صدقہ  اداکرنے کی ترتیب  بنائے، اس کے بعد سائل کے  اصل سوال کا جواب یہ  ہے کہ :

1۔ قرض کی ادائیگی کے لیے ضروری ہے کہ قرض خواہ کو قرض  کہہ کرواپس کیاجائے،جیب خرچ کہہ کر دینے سے  مقروض کا قرض ادانہیں ہوگا اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں؛ کیوں کہ ایک ( یعنی قرض) میں لزوم ہے اور دوسرے( یعنی جیب خرچ) میں لزوم نہیں، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل اگر اپنی والدہ کو  جیب خرچ کے طورپر  جو پیسے دیتاہے سائل اگر اسی میں قرض اداکرنے کی  نیت کرے تو اس سے   سائل کا قرض  ادا نہیں ہوگا بلکہ ضروری ہے کہ سائل اپنی والدہ سے قرض کہہ کر واپس کرے،باقی قرض اداکرنے  کی وجہ سے  اگر اللہ تعالیٰ  سائل کو جیب خرچ دینے کا بھی  اجروثواب عطا کردیں تو اس کے خزانوں میں  کوئی کمی نہیں۔

2۔صرف صدقے کی نیت سے رقم الگ کرنے سے   اس رقم کا صدقہ کرنا لازم نہیں ہوتا جب تک زبان سے الفاظ اداکرکے خود پر لازم نہ کیا جائے، صورتِ مسئولہ میں اگر  سائل  دس فیصد رقم  زبان سے کچھ کہے بغیر صدقے کے لیے الگ کرکے رکھتاہے اور پھر مہینے کے آخر میں کچھ رقم بچ جائے تو اس صورت میں   اس  رقم  سے سائل  کا اپنی بیوہ کا جیب خرچ بڑھادینا یا خود استعمال کرنا  درست ہے،  شرعاً اس میں کوئی  مضائقہ نہیں ہے۔

صحیح البخاری میں ہے:

"باب لاصدقة إلا عن ظهر غنى «ومن تصدّق وهو محتاج، أو أهله محتاج، أو عليه دين، فالدين أحق أن يقضى من الصدقة، والعتق والهبة، وهو رد عليه ليس له أن يتلف أموال الناس» وقال النبي صلى الله عليه وسلم: «من أخذ أموال الناس يريد إتلافها، أتلفه الله» إلا أن يكون معروفا بالصبر، فيؤثر على نفسه ولو كان به خصاصة «كفعل أبي بكر رضي الله عنه،» حين تصدق بماله «وكذلك آثر الأنصار المهاجرين ونهى النبي صلى الله عليه وسلم عن إضاعة المال» فليس له أن يضيع أموال الناس بعلة الصدقة "...

1426 - حدثنا عبدان، أخبرنا عبد الله، عن يونس، عن الزهري، قال: أخبرني سعيد بن المسيب، أنه سمع أبا هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «خير الصدقة ما كان عن ظهر غنى، وابدأ بمن تعول»."

( كتاب الزكاة، 2 / 112، ط: دار طوق النجاة)

علامہ  بدرالدین عینی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

"ومن تصدق وهو محتاج أو أهله محتاج أو عليه دين فالدين أحق أن يقضى من الصدقة والعتق والهبة وهو رد عليه ليس له أن يتلف أموال الناس هذا كله من الترجمة وقع تفسيرا لقوله: (لا صدقة إلا عن ظهر غنى) ، والمعنى أن شرط التصدق أن لا يكون محتاجا ولا أهله محتاجا ولا يكون عليه دين فإذا كان عليه دين فالواجب أن يقضي دينه، وقضاء الدين أحق من الصدقة والعتق والهبة لأن الابتداء بالفرائض قبل النوافل، وليس لأحد إتلاف نفسه وإتلاف أهله وإحياء غيره، وإنما عليه إحياء غيره بعد إحياء نفسه وأهله إذ هما أوجب عليه من حق سائر الناس."

(عمدۃ القاری، كتاب الزكاة،8 / 293، ط: دار إحياء التراث العربي-بيروت)

البحرالرائق میں ہے:

"وركنها اللفظ المستعمل فيها، وشرطها العقل والبلوغ". 

(ج:4، ص: 300، ط: دارالکتاب الاسلامي)

بدائع الصنائع میں ہے :

"(فصل): وأما ركن اليمين بالله تعالى فهو اللفظ الذي يستعمل في اليمين بالله تعالى".

(ج:6، ص: 210، ط: دارالکتب العلمية)

 فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144507102023

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں