بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

صدقہ کا گوشت خود کھانے اور اپنے گھر والوں کو کھلانے کا حکم


سوال

کیا صدقے کا گوشت گھر میں رکھ سکتے ہیں؟

جواب

سوال کے جملے ’’صدقے کا گوشت گھر میں رکھنے‘‘ سے اگر سائل کا مقصد صدقے کا گوشت خود کھانے یا گھر والوں کو کھلانے کے متعلق پوچھنا ہے تو اگر گوشت واجب صدقہ  (مثلا زکاۃ، صدقہ فطر، کفارہ، فدیہ، دم،نذر/منت) کا ہو، تو اس صورت میں پورے گوشت کو مستحقین میں تقسیم کرنا ضروری ہے، اس میں سےنہ خود کھا سکتا ہے اور  نہ گھر والے کھا سکتے ہیں، اور نہ ہی مالدار لوگ کھا سکتے ہیں۔

اور اگر گوشت نفلی صدقہ کا ہے، تو یہ گوشت خود کھانااور گھر والوں  کے لیے  کھانا/استعمال کرنا جائز ہے، تاہم جو شخص  کسی وجہ سے صدقہ نکال رہا ہو،مثلاً: کسی حادثہ یا بیماری کے سبب صدقہ کر رہا ہو تو اس کے لیے زیادہ بہتر اور اولیٰ یہی ہے کہ اِس صورت میں وہ خود بھی نہ کھائے اور جو افراد اس کی کفالت میں ہیں ان کو بھی نہ کھلائے، بلکہ  سارا کا سارا کسی مستحق فرد یا افراد کو دے دے ۔

الترغیب والترہیب للمنذری میں ہے:

"وروي عن عائشة رضي الله عنها أنهم ذبحوا شاة فقال النبي صلى الله عليه وسلم ما بقي منها قالت ما بقي منها إلا كتفهاقال بقي كلها غير كتفها.رواه الترمذي وقال حديث حسن صحيح ومعناه أنهم تصدقوا بها إلا كتفها".

(الترغيب في الصدقة والحث عليها، ج:5، ص:2، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے :

"نذر التصدق علی الأغنیاء لم یصح ما لم ینو أبناء السبیل، وفیه:ولو قال إن برء ت من مرضی هذا ذبحت شاة أو علیّ شاة بأذبحها فبریٔ لایلزمه شيء ؛ لأن الذبح لیس من جنسه فرض بل واجب کالأضحیة فلایصح إلا إذا زاد وأتصدق بلحمها فیلزمه ؛ لأن الصدقة من جنسها فرض وهی الزکوٰة الخ۔".

(‌‌كتاب الأيمان، ج:3، ص:738، ط:سعيد)

وفیہ أيضاً:

"(قوله ‌ويأكل ‌من ‌لحم ‌الأضحية إلخ) هذا في الأضحية الواجبة والسنة سواء إذا لم تكن واجبة بالنذر، وإن وجبت به فلا يأكل منها شيئا ولا يطعم غنيا سواء كان الناذر غنيا أو فقيرا لأن سبيلها التصدق وليس للمتصدق ذلك، ولو أكل فعليه قيمة ما أكل زيلعي...

والحاصل أن التي لا يؤكل منها هي المنذورة ابتداء والتي وجب التصدق بعينها بعد أيام النحر والتي ضحى بها عن الميت بأمره على المختار كما قدمناه عن البزازية. والواجبة على الفقير بالشراء على أحد القولين المارين والذي ولدته الأضحية كما قدمناه عن الخانية والمشتركة بين سبعة نوى بعضهم بحصته القضاء عن الماضي كما قدمناه آنفا عن الخانية أيضا، فهذه كلها سبيلها التصدق على الفقير فاغتنم هذا التحرير".

(‌‌كتاب الأضحية، ج:6،ص:327، ط:سعید)

وفیہ أيضاً:

"شرى أضحيةً وأمر رجلًا بذبحها، فقال: تركت التسمية عمدًا لزمه قيمتها ليشتري الآمر بها أخرى ويضحي، ويتصدق ولا يأكل ای غنی".

(كتاب الأضحية، فروع لون أضحيته عليه الصلاة والسلام سوداء، ج:6، ص:333، ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504100564

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں