بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صدقہ اور عطیہ میں فرق


سوال

صدقہ اور عطیہ میں کیا فرق ہے؟

جواب

صدقہ کی دو قسمیں ہیں: صدقاتِ  واجبہ،  جیسے:  زکاۃ وغیرہ اور نفلی صدقات، جیسے:  کسی کو اللہ کی رضا کے لیے کچھ دینا۔

 عطیہ کا لفظ  عام ہے، ہدیہ اور نفلی صدقہ دونوں پر بولا جاتا ہے۔

عطیہ اور صدقہ میں چند فروق ہیں:

1:صدقہ محض  ثواب کے لیے دیا جاتاہے اور عطیہ  ثواب  کے علاوہ  اکرام  اور خوش دلی کے لیے بھی دیا جاتاہے ۔

2:عطیہ(ہدیہ) مالدار اور غریب دونوں کو دیا جاسکتاہے لیکن صدقہ واجبہ محض مستحقین کو دیاجاسکتاہے، تاہم نفلی صدقہ مالداروں کو بھی دینا جائز ہے۔

3: صدقہ میں رجوع جائز نہیں لیکن عطیہ (ہدیہ ) کےبعض صورتوں میں رجوع جائز ہے۔

عمدۃ القاری میں ہے:

"‌قال ‌الكرماني: ‌والفرق بين الصدقة والهبة أن الصدقة هبة لثواب الآخرة، والهدية هبة تنقل إلى المتهب إكراما له قلت: الصدقة قد تكون هبة، والهبة قد تكون صدقة، وإن الصدقة على الغني هبة، والهبة للفقير صدقة."

[كتاب الزكاة، باب الصدقة، ج:9، ص:90، ط: دار إحياء التراث العربي]

وفيه أيضا:

"عن زيد بن أسلم عن أبيه قال سمعت عمر ابن الخطاب رضي الله تعالى عنه يقول حملت على فرس في سبيل الله فأضاعه الذي كان عنده فأردت أن أشتريه منه وظننت أنه بائعه برخص فسألت عن ذلك النبي صلى الله عليه وسلم فقال لا تشتره وإن أعطاكه بدرهم واحد فإن العائد في صدقته كالكلب يعود في قيئه، مطابقته للترجمة تتعين أن يقال في قوله: (فإن العائد في صدقته كالكلب يعود في قيئه) ، والذي يفهم من صنيع البخاري أنه لا يفرق بين الهبة والصدقة، وليس كذلك، فإن الهبة يجوز الرجوع فيها على ما فيه من الخلاف والتفصيل، بخلاف الصدقة فإنه لا يجوز الرجوع فيها مطلقا."

[كتاب العتق، باب فيما لا يحل لأحد أن يرجع في هبته وصدقته،ج:13، ص:174ط: دار إحياء التراث العربي]

بدائع الصنائع میں ہے:

"وكما لا يجوز صرف الزكاة إلى الغني لا يجوز صرف جميع الصدقات المفروضة والواجبة إليه كالعشور والكفارات والنذور وصدقة الفطر لعموم قوله تعالى {إنما الصدقات للفقراء} [التوبة: 60] وقول النبي - صلى الله عليه وسلم - «لا تحل الصدقة لغني» ولأن الصدقة مال تمكن فيه الخبث لكونه غسالة الناس لحصول الطهارة لهم به من الذنوب، ولا يجوز الانتفاع بالخبيث إلا عند الحاجة والحاجة للفقير لا للغني.

‌وأما ‌صدقة ‌التطوع فيجوز صرفها إلى الغني؛ لأنها تجري مجرى الهبة."

[كتاب الزكاة، فصل ركن الزكاة، ج:2، ص:74، ط:دار الكتب العلمية]

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101829

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں