بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سچ کہہ کر ’اگر میں جھوٹ بول رہا ہوں تو مجھ پر میری بیوی طلاق ہوگی‘ کہنے سے طلاق کا حکم


سوال

 1: اگر ایک شخص اپنے قول و فعل میں سچا ہو یا سچ پر ہو،  لیکن لوگ اس کی بات کا یقین نہیں کرتے،  اگر وہ لوگوں کو اپنی بات کا یقین دلانے کے لیے طلاق کے الفاظ کا استعمال کرے،  مثلاً وہ یہ کہے کہ اگر میں جھوٹ بول رہا ہوں تو مجھ پر اپنی بیوی طلاق ہوگی تو کیا اس سے طلاق واقع ہوگی یا نہیں ؟

 2: بکر اور عمر آپس میں دوست  ہیں، لیکن دونوں کا کسی بات پر جھگڑا ہوا،  حال آں کہ بکر جو کچھ کہہ رہا ہے وہ سچ ہے لیکن عمر اس کی اس بات کا یقین نہیں کر رہا۔ عمر نے طیش میں آ کر اپنے ہاتھ کی تینوں انگلیاں بکر کے ہاتھ میں دے کر کہا: پکڑو اگر آپ سچ کہہ رہے ہیں۔ بکر نے عمر کو یقین دلانے کے  لیے اس کی تینوں انگلیاں پکڑ لی۔

نوٹ: تین انگلیوں کو پکڑنا کنایہ/ اشارے کے طور پر ہمارے ہاں طلاق کے  لیے استعمال ہوتی۔

الف): اب یہ پوچھنا ہے کہ اگر بکر واقعی سچ بول رہا ہے  جیسا کہ سوال میں بھی واضح لکھا ہے تو کیا اس سے طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟

(ب): اگر بکر کے جھوٹ بولنے کی صورت میں طلاق واقع بھی ہو جاتی ہے تو کون سی ہوگی ؟

(س): محض کسی کو اپنی بات کا یقین دلانے کے  لیے اس کے کہنے پر اس کی انگلیاں پکڑنا کیا اسی کنایہ/اشارے کی طرح ہے جو طلاق کے لیئے استعمال ہوتے ہیں ؟ 

جواب

۱۔ صورتِ  مسئولہ میں طلاق واقع نہیں ہوئی؛ کیوں کہ طلاق جھوٹ بولنے پر معلق کی گئی اور مذکورہ شخص نے جھوٹ نہیں بولا۔

۲۔ واضح ہو کہ طلاق واقع ہونے کے لیے طلاق کے الفاظ کا استعمال ضروری ہے، صرف اشارات سے طلاق واقع نہیں ہوتی اگرچہ کسی خاص جگہ میں اسے طلاق واقع کرنے کے لیے عرف سمجھا جاتا ہو ؛  لہذا صورتِ  مسئولہ میں تین انگلیاں پکڑ لینے سے طلاق واقع نہیں ہوئی،  چاہے بکر سچ بول رہا ہو یا جھوٹ۔

الفتاوى الهندية میں ہے : 

"رجل قال: إن كذبت فامرأتي طالق فسئل عن أمر فحرك رأسه بالكذب لا يحنث في يمينه ما لم يتكلم، كذا في فتاوى قاضي خان."

 (1/ 448، رشیدیہ)

فتاوی شامی  میں ہے :

"وبه ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق ولم يذكر لفظا لا صريحا ولا كناية لا يقع عليه كما أفتى به الخير الرملي وغيره، وكذا ما يفعله بعض سكان البوادي من أمرها بحلق شعرها لا يقع به طلاق وإن نواه۔"

(3/ 230، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100962

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں