اگر کوئی شخص اپنے گھر کے لیے سبزی اُگائے، تجارت کی نیت سے نہ ہو ، اس میں عشر کا کیا حکم ہے، قلیل اور کثیر کیا جائے گا یا نہیں؟ اور اسی طرح اگر تجارت کی نیت سے ہو، اس میں عشر کا کیا حکم ہے ؟
کھیت میں اُگائی گئی سبزیاں خواہ تھوڑی ہوں یا زیادہ، تجارت کے مقصد سے ہوں یا گھر کے استعمال کےلیے ہوں، بہر صورت ان میں عشر یا نصف عشر واجب ہے، البتہ گھر میں موجود درخت کے پھل یا گھر کی کیاری میں لگی سبزیوں پر عشر واجب نہیں۔
باقی عشر یا نصف عشر واجب ہونے کی یہ تفصیل ہے کہ اگر زمین کو سال کے اکثر حصہ میں ایسے پانی سے سیراب کیا جائے جس میں خرچہ نہ آتا ہو یعنی قدرتی آبی وسائل (بارش، ندی، چشمہ وغیرہ) سے سیراب کی جائے تو اس میں عشر ( کل پیداوارکا دسواں حصہ یعنی ٪10) واجب ہوتا هے، اور اگر زمین کو ایسے پانی سے سیراب کیا جائے جس میں خرچہ آتا ہو یعنی اس زمین کو مصنوعی پانی پہنچانے کے آلات ووسائل (مثلاً: ٹیوب ویل یا خریدے ہوئے پانی سے سیراب کیا جائے تو اس میں نصفِ عشر ( کل پیداوار کا بیسواں حصہ یعنی٪5) واجب ہوتا ہے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"ويجب العشر عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - في كل ما تخرجه الأرض من الحنطة والشعير والدخن والأرز، وأصناف الحبوب والبقول والرياحين والأوراد والرطاب وقصب السكر والذريرة والبطيخ والقثاء والخيار والباذنجان والعصفر، وأشباه ذلك مما له ثمرة باقية أو غير باقية قل أو كثر هكذا في فتاوى قاضي خان سواء يسقى بماء السماء أو سيحا يقع في الوسق أو لا يقع هكذا في شرح الطحاوي... ولو كان في دار رجل شجرة مثمرة لا عشر فيها كذا في شرح المجمع لابن الملك. وما سقي بالدولاب والدالية ففيه نصف العشر، وإن سقي سيحا وبدالية يعتبر أكثر السنة فإن استويا يجب نصف العشر كذا في خزانة المفتين."
(كتاب الزكاة، لباب السادس في زكاة الزرع والثمار، 1/ 186، ط: رشيدية)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144604101537
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن