بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حاملہ عورت کے لیے عدتِ طلاق کی مدت


سوال

فتوی نمبر 144507101341 اس فتوے کا تو مجھے جواب مل گیا ہے، اس میں سے میں نے تھوڑی سی اور انفارمیشن لینی ہے، فریق ِ اول اور فریقِ  دوم ازواج زندگی گزارنے کے لیے رضامند ہوں تو (حلالے کے ذریعے) جب حمل عورت کا بچہ کی ولادت ہو جائے اس میں چاہے بچی ہو یا بچہ ہو اور ماں اپنے بچے یا بچی کواپنا دودھ پلا دے تو پھر دودھ پیریڈ کا بھی انتظار کرنا ہوگاماں اپنے بچے کو دودھ پلا نے کے بعد دودھ پیریڈ کے قانون بھی ہمارے  اوپر  لاگو ہو جائیں گے، پھر اور بچے کا کتنا عرصہ پیریڈ ہے اور بچی کا کتنا عرصہ پیریڈ ہے دودھ کا، دودھ کے پیریڈ میں ہمیں شریعت کیا احکامات دیتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اگر  کسی عورت کو اس کا شوہر حاملہ ہونے کی حالت میں   طلاق  دے دیتاہے     تو اس کی عدت  شرعاً اس کی وضعِ حمل ( بچے کی پیدائش) تک ہوتی ہے، اس کے بعد اس  مطلقہ کی عدت مکمل ہوجاتی ہے اور  وہ دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزادہوتی ہے دوسری جگہ نکاح  کے لیے بچے کی  دودھ پیریڈ  تک کا انتظارکرنا ضروری نہیں  ہے۔

صورتِ مسئولہ میں جب  عورت  طلاق  کے واقع ہونے  کی حالت میں   حمل سے  تھی  تو اب  جب  اس کا وضعِ حمل ( بچہ پیدا ) ہوجائے تو اس کی عدت مکمل ہوجائے گی، اس کے لیے بچے  کے دودھ پیریڈ ( یعنی دودھ پلانے کی مدت) تک کا انتظار کرنا   شرعاً عدت میں داخل  نہیں ہے، مطلقہ عورت   بچے کی پیدائش  کے بعد  دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد  ہوتی ہے ، نیز  بچہ ہو یا بچی  شرعاً دونوں کی مدتِ رضاعت  دوسال ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) في حق (الحامل) مطلقا ولو أمة، أو كتابية، أو من زنا بأن تزوج حبلى من زنا ودخل بها ثم مات، أو طلقها تعتد بالوضع جواهر الفتاوى (وضع) جميع (حملها)."

(كتاب الطلاق، باب العدة: 3 /511، ط: سعید)

تحفة الفقہاء میں ہے:

"وأما عدة الطلاق فثلاثة قروء في حق ذوات الأقراء إذا كانت حرة .....وأما في حق الحامل فعدتها وضع الحمل لا خلاف في المطلقة لظاهر قوله: {وأولات الأحمال أجلهن أن يضعن حملهن }."

(تحفة الفقهاء: كتاب الطلاق، باب العدة (2/ 244، 245)،ط. دار الكتب العلمية،بيروت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"الرضاع . . . شرعا مص من ثدي آدمیة في وقت مخصوص هو حولان و نصف عنده و حولان فقط عندهما وهو الاصح وبه یفتي."

(کتاب النکاح، باب الرضاع،209/3، سعید)

فقط و اللہ أعلم


فتوی نمبر : 144508100125

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں