بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صابن استعمال کرنے کا حکم


سوال

میرا ایک دوست صابن کا استعمال بغیر کسی وجہ سے  بالکل ہی نہیں کرتا ہے ؟ مہربانی فرما کر  نصیحت فرمائیں۔

جواب

صابن کا استعمال  مباح ہے، فرض یا واجب نہیں، البتہ صابن چونکہ جسم سے میل کچیل کو اچھی طرح زائل کرنے، اور پسینہ  سے پیدا ہونے والی بو کو ختم کرنے میں معین ہوتا ہے، لہذا نظافتِ بدن کے لیے  خالص پانی سے  نہانے کے بجائے صابن استعمال کرنا بہتر ہوگا۔

سنن النسائيمیں ہے:

"١٨٨ - أخبرنا ‌عمرو بن علي قال: حدثنا ‌يحيى قال: حدثنا ‌سفيان ، عن ‌الأغر - وهو ابن الصباح - عن ‌خليفة بن حصين ، عن ‌قيس بن عاصم «أنه أسلم فأمره النبي صلى الله عليه وسلم أن يغتسل بماء وسدر»."

(كتاب الطهارة، ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه، غسل الكافر إذا أسلم، ١ / ١٠٩، ط: المكتبة التجارية الكبرى بالقاهرة)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيحمیں ہے: 

"والغرض منه تطهيره من النجاسة المحتملة على أعضائه من الوسخ والرائحة الكريهة، وإنما أمره عليه الصلاة والسلام بالغسل بالماء والسدر للمبالغة في التنظيف ; لأنه يطيب الجسد."

(كتاب الطهارة، باب الغسل المسنون، ٢ / ٤٩٠، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144507101434

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں