ایک شخص ہے جن کی رہائش آبائی گاؤں میں تھی ، گاؤں میں اپنےگھرکےساتھ کچھ زمینیں بھی تھیں، جن میں زراعت کیاکرتاتھا، مگرکسی عارض کی وجہ سےان کوگاؤں چھوڑناپڑا،اورشہرآکراپنی رہائش اختیارکرلی، اوریہیں شہرمیں اپناکام کاج کرتاہے، اس وقت ان کاگاؤں واپس جانے کااردہ بطوررہائش قطعاًنہیں ہے ، جب کہ گاؤں میں موجودزمینوں کواپنے اقرباء کے مابین بطورعاریت تقسیم کردیا، اوراب اپنے گاؤں میں آناجاصرف اعزہ واقرباء کے خوشی وغمی میں شرکت کےلیے ہوتاہے ، یہ بات بھی واضح رہے کہ موصوف اپنی میت (گھرکےافرادمیں سے کسی کی بھی ہو)گاؤں میں خصوصیت کے ساتھ دفناتاہے ۔
ان تمام تفصیلات کے بعدپوچھنایہ ہے کہ اب یہ شخص اگرشہرسے گاؤں جائےاورپندرہ دن سے کم کی نیت ہوتوسفرکی نمازقصرپرھے گایااتمام کرے گا؟کیوں کہ شہراورگاؤں کے درمیان فاصلہ مقدارسفرکی مسافت سے زائد ہے ۔مسئلہ مذکورہ کی قرآن وسنت کی روشنی میں وضاحت فرماکرممنون فرمائیں۔
صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص نےاپنےآبائی وطن میں رہنے کاارادہ بالکل ترک کردیاہے اور آبائی وطن کومستقل چھوڑ کر کسی دوسری جگہ کواپنامستقل وطن اصلی بنالیاہےتو آبائی وطن اس کاوطن اصلی نہ ہونے کی وجہ سے پندہ دن سے کم قیام کرنے اور تنہا نماز پڑھنے کی صورت میں وہاں قصرنمازاداکرے گا۔
فتاوی شامی میں ہے :
(الوطن الاصلي) هو موطن ولادته أو تأهله أو توطنه (يبطل بمثله) إذا لم يبق له بالاول أهل۔
(الدرالمختارمع ردالمحتار باب صلوٰۃالمسافر ۲/۱۳۱ط : سعيد)
فتاوی شامی میں ہے:
(من خرج من عمارة موضع إقامته قاصدا مسيرة ثلاثة أيام و لياليها…..صلى الفرض الرباعي ركعتين ……حتى يدخل موضع مقامه أو ينوي إقامة نصف شهر)
)تنویرالابصار کتاب الصلوة باب صلوةالمسافر ۲/۱۲۱تا۱۲۵ ط:سعید)
فتح القدیر میں ہے :
(وإذا فارق المسافر بيوت المصر صلى ركعتين) ؛ لأن الإقامة تتعلق بدخولها فيتعلق السفر بالخروج عنها.
(فتح القدیر کتاب الصلوة باب صلوةالمسافر ۲/۳۳ط:دارالفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144305100272
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن