ہماری مسجد کے امام صاحب کی غیر موجودگی میں جو بندہ امامت کراتا ہے اس کی عمر ابھی 23 یا 24 سال ہے، وہ جب حا فظ قران نہیں تھا تو اُس نے ایک لڑکے کے ساتھ بدفعلی کی تھی، تو کیا اُس امام کے پیچھے نماز درست ہوگی؟
صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص اپنی سابقہ زندگی پر نادم ہے ، اور اس نے اپنی سابقہ زندگی سے توبہ کرلی ہے ،آئندہ احکامِ شریعت کی پابندی کے ساتھ زندگی گزارنے کا عزم کرلیا ہے، حافظِ قرآن بھی ہے اور نماز کے مسائل سے بھی واقف ہے تو اس کی امامت بلاکراہت جائز ہے۔
الدر المختار میں ہے:
"(والأحق بالإمامة) تقديما بل نصبا مجمع الأنهر (الأعلم بأحكام الصلاة) فقط صحة وفسادا بشرط اجتنابه للفواحش الظاهرة، وحفظه قدر فرض، وقيل واجب، وقيل سنة (ثم الأحسن تلاوة) وتجويدا (للقراءة، ثم الأورع) أي الأكثر اتقاء للشبهات. والتقوى: اتقاء المحرمات."
(الدر المختار مع رد المحتار،كتاب الصلوٰة، باب الامامة،557/1، سعيد)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144504100175
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن