بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سابقہ ایک فتویٰ کی وضاحت


سوال

 آپ نے جناب اس سے پہلے سوال میں یہ پیراگراف لکھا ہے اس کا کیا مطلب ہے؟  (اس کو سودا کرتے وقت شرائط میں شامل نہ کریں تو اس میں کوئی سودی معاملہ نہیں ہوگا۔) برائے مہربانی اس کی ضرور ی وضاحت فرمائیں تاکہ مجھے اس جواب کو سمجھنے میں آسانی ہو سکے۔

جواب

استفتاء نمبر 144402100588 کے جو اب میں مذکورہ شق کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا ڈائمنڈ یا کسی دوسری کلر کی کمپنی سے خریداری کا معاملہ جس قیمت پر ہو ،شرعی اعتبار سے آپ کے ذمہ وہ قیمت ادا کرنا لازم ہے،باقی اگر وہ خود سے کچھ فیصد ڈسکاؤنٹ دینا چاہیں تو یہ ان کی طرف سے تبرع ہے،البتہ اس شرط پر خریداری کا معاملہ کرنا کہ کمپنی مجھے خریداری کے بعد لازما ً ڈسکاؤنٹ دے  اور اس شرط کو خریداری کے معاہدہ کا حصہ بنانا،یہ شرعا جائز نہیں ہے، البتہ سودا ہوجانے کے بعد ڈسکاونٹ کی بات کرے تو اس میں کوئی قباحت نہیں، باقی ڈسکاونٹ دینا یا نہ دینا بائع کی مرضی ہے۔

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"إذا اشترط المشتري مالا بشرط أن يهبه البائع أو أن يتصدق عليه أو يقرضه مالا معلوما أو أن يبيعه أو يؤجره أو يعيره مالا معينا فالبيع فاسد؛ لأن هذه الشروط فيها نفع لأحد العاقدين."

(کتاب البیوع،الباب الأول في بيان المسائل المتعلقة بعقد البيع،ج1،ص162،ط؛دار الجیل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101025

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں