بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سابقہ آسمانی کتب کا سیکھنا اور غیر مسلموں کو پڑھانا


سوال

(1)  ایک عورت ہے  اس کا دیور انجیل بائبل  وغیرہ پر مہارت حاصل کرکے باہر ملک میں  یہ غیرمسلموں کو پڑھاتا ہے تو اس کی  تنخواہ اس  کے لیے جائز ہے یا نہیں؟

(2) اور اس کمائی سے گھر کے دوسرے افراد بھی کھاتے ہیں؛ کیوں کہ گھر میں سب شریک رہتے ہیں تو ان کے  لیے اس میں سے کھانا جائز ہے یا نہیں؟


جواب

قرآن ِمجید کے نازل ہونے کے بعد  پچھلی انبیاء پر نازل شدہ  تمام کتابیں منسوخ ہوگئی ہیں، نیز ان کتابوں میں بعد  کے لوگوں نے بہت زیادہ تحریف کردی ہے، جس کی وجہ سے صحیح اور  غلط کا اندازا  بھی مشکل ہے،  اس لیے قرآنِ مجید کے علاوہ کسی بھی آسمانی کتاب کی تعلیم جائز نہیں ہے، البتہ اگر کسی شخص کو اسلام  کے اَحکام پر  مکمل عبور حاصل ہو اوروہ ان کتب کامطالعہ اس  لیے کرے؛ تاکہ مخالفین  کے اعتراضات کا جواب دے سکے تو اس کی اجازت ہوگی۔

لہذا   صورتِ  مسئولہ  میں  مذکورہ عورت کے  دیور  کا بائبل وغیرہ کتب کو  پڑھنا یا غیر مسلموں کو پڑھانا جائز نہیں ہے، اور اس کی آمدنی بھی حلال نہیں ہے۔

2۔ اگر ان کی  مکمل یا غالب آمدنی یہی ہے اور اسی پیسے سے وہ گھر میں خرچ کریں اور گھر والے مستحقِ زکاۃ نہ ہوں تو ان کی رقم استعمال کرنا  جائز نہیں ہوگا، اگر ان کی غالب آمدنی حلال کی ہے، یا وہ حلال رقم  سے گھر میں خرچہ دیں تو پھر اس کا استعمال جائز ہوگا۔

مشكاة المصابيح (1 / 68):

"عَن جَابِرٍ: (أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنُسْخَةٍ مِنَ التَّوْرَاةِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذِهِ نُسْخَةٌ مِنَ التَّوْرَاةِ فَسَكَتَ فَجَعَلَ يقْرَأ وَوجه رَسُول الله يَتَغَيَّرُ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ ثَكِلَتْكَ الثَّوَاكِلُ مَا تَرَى مَا بِوَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَظَرَ عُمَرُ إِلَى وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَعُوذُ بِاللَّه من غضب الله وَغَضب رَسُوله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ بَدَا لَكُمْ مُوسَى فَاتَّبَعْتُمُوهُ وَتَرَكْتُمُونِي لَضَلَلْتُمْ عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ وَلَوْ كَانَ حَيًّا وَأَدْرَكَ نُبُوَّتِي لَاتَّبَعَنِي) رَوَاهُ الدَّارمِيّ."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 175):

"واختار سيدي عبد الغني ما في الخلاصة، وأطال في تقريره، ثم قال: وقد نھينا عن النظر في شيء منھا سواء نقلها إلينا الكفار أو من أسلم منھم."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206201365

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں