بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سابقہ قرض وصول کرنے کی غرض سے حالیہ قرض نفع کے ساتھ واپس کرنے کی شرط لگانے کی تدبیر اختیار کرنے کا حکم


سوال

 میں نے 50000 روپے حسن کو ادھار دیئے، اب وہ واپس نہیں کر رہا 4 5 سال ہو گئے، پھر کچھ عرصہ بعد حسن نے مجھ سے دوبارہ 10000 روپے مانگے، میں نے کہاکہ  ہر ہفتہ مجھے دو ہزار دو گے، میری نیت یہ ہے کہ دو ہزار اس سے پچھلے 50000 میں سے کاٹتا رہوں گا، لیکن حسن کو یہ ظاہر کیا کہ یہ دو ہزار پروفٹ کے لے رہا ہوں اور جب 50000 مکمل ہو جائیں پھر حسن کو بتا دوں کہ میں یہ پچھلے پیسے وصول کر رہا تھا۔

سوال یہ ہے کہ میرا اس طرح پروفٹ کے نام پر پچھلے 50000 وصول کرنا جائز ہوگا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعتاً آپ کےمطالبہ کے باوجود اپنے دوست کی طرف سے  سابقہ قرضہ واپس نہ ملنے کی بنا پر  اس قرضہ کو وصول کرنے کی غرض سے مذکورہ تدبیر اختیار کی ہے تو آپ کے لیے اس طرح  تدبیر اختیار کر کے اپنے سابقہ قرضہ وصول کرنے کی شرعاً گنجائش ہے، البتہ وصول ہونے کے بعد اپنے دوست سے یہ بات وضاحت کر دیں کہ میں سابقہ قرضہ وصول کر رہا تھا، تاکہ کسی کے ذہن میں سود کے لین دین ہونے کا کوئی شبہ نہ رہے۔

 فتاوٰی شامی میں ہے:

"مطلب يعذر بالعمل بمذهب الغير عند الضرورة (قوله وأطلق الشافعي أخذ خلاف الجنس) أي من النقود أو العروض؛ لأن النقود يجوز أخذها عندنا على ما قررناه آنفا. قال القهستاني: وفيه إيماء إلى أن له أن يأخذ من خلاف جنسه عند المجانسة في المالية، وهذا أوسع فيجوز الأخذ به وإن لم يكن مذهبنا، فإن الإنسان يعذر في العمل به عند الضرورة كما في الزاهدي. اهـ. قلت: وهذا ما قالوا إنه لا مستند له، لكن رأيت في شرح نظم الكنز للمقدسي من كتاب الحجر. قال: ونقل جد والدي لأمه الجمال الأشقر في شرحه للقدوري أن عدم جواز الأخذ من خلاف الجنس كان في زمانهم لمطاوعتهم في الحقوق. والفتوى اليوم على جواز الأخذ عند القدرة من أي مال كان لا سيما في ديارنا لمداومتهم للعقوق:

عفاء على هذا الزمان فإنه ... زمان عقوق لا زمان حقوق

وكل رفيق فيه غير مرافق ... وكل صديق فيه غير صدوق."

(کتاب السرقة، مطلب يعذر بالعمل بمذهب الغير عند الضرورة :ج:4، ص:95، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144404101070

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں