بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سبق طویل ہوجانے کی وجہ سے جماعت نکل جانے کا حکم


سوال

اگر کوئی پڑھانے والا پڑھانے میں اتنی تاخیر کرے، جس کی وجہ سےطلبہ کی جماعت ترک ہوجائے، تو کیا ایساکرناجائز ہے؟حالاں کہ جماعت کے ترک کرنے کے بارے میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں،اور علمِ دین حاصل کرنے کا مقصد ہی اللہ تعالی کے احکام کی تعمیل کرنا ہے،ایسے شخص سے علم حاصل کرنا جو گناہِ کبیرہ کاارتکاب کروائے ضروری ہے؟ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث تارکِ نماز کے گھر کو جلانے کے بارے میں ہے،علم دین کا مقصد ہی اللہ تعالی کے احکام کی تعمیل کرنا ہے،راہ نمائی فرمائیں ۔

مزید یہ باتیں بھی یاد رکھیں کہ  اکثر ایسا ہی ہوتا ہے مہینے میں ایک دو بار جلدی سبق ختم کر دیتے ہیں ،دوسرا یہ کہ گھنٹہ شروع ہونے کے کافی دیر بعد آتے ہیں جس کی وجہ سےجتنا پڑھانے کا ارادہ ہوتا ہے اتنا حصہ مکمل نہیں ہوپاتا، اِس لیے سبق مکمل کر نے کے لیے اتنی تاخیر کر دیتے ہیں کہ سنن مؤکدہ تو اکثر کی نکل جاتی ہیں اور اکثر طلبہ کی جماعت کا اکثر حصہ یا پوری جماعت ہی نکل جاتی ہے،اسی طرح مدرسے میں ہر نماز میں حاضری ہوتی ہے جس کی وجہ سے کوئی باہر نہیں جا سکتا اور مدرسے میں نماز بھی سب سے دیر میں ہوتی ہے ،جب کہ وہ کسی دوسری مسجد سے پہلے ہی نماز پڑھ کر آتے ہیں ،یا پھر وہ وضوء کرکے آتے ہیں اور نماز میں شامل ہو جاتے ہیں اور اکثر اُن کی بھی رکعت نکل جاتی ہے لیکن طلبہ کے لیے مُشکِل یہ ہے کہ اذان کے بعد  جماعت میں شامل ہونے کے لیے صرف دس منٹ ہی ہوتے ہیں،اس میں  سے بھی وہ ہر روزچھ تا آٹھ منٹ لے لیتے ہیں جس کے بعد استنجاء کرکے وضوء کرکے جماعت میں شامل ہونا ناممکن ہوتا ہے، اور وضوء خانہ وغیرہ دور بھی ہیں اگر وہ وقت پر سبق مکمل کر دیں جس طرح دوسری درس گاہوں میں ہوتا ہے تو ہر ایک کو اِن شاء اللہ مکمل جماعت مل جائے گی۔

جواب

واضح رہے کہ استاد صاحب  مدرسے میں استاد مقرر ہونے کی وجہ سے اس بات کے پابند ہیں کہ وہ درس گاہ میں وقت پر آئیں،اور جو کام مدرسے کی انتظامیہ کی طرف سے ان کے ذمہ سپردکیا گیا ہے اس کو اسی وقت میں پورا کریں،لہذاصورتِ مسئولہ میں مذکورہ استاد صاحب کے لیےبغیر کسی عذر کے  درس گاہ میں تاخیر سے آکر مدرسہ،انتظامیہ اور طلبہ سے کیے ہوئے وعدے کی خلاف ورزی کرنااور اپنے ذمے میں واجب حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کا مرتکب ہونا درست نہیں، استاد صاحب کو چاہیے کہ وہ درس گاہ میں وقت پر   پہنچ کر سبق مکمل کرانے کے بعد جماعت کی نماز قائم ہونے سے پہلے طلبہ کو اس قدر وقت دیں، جس میں وہ اپنی ضروریات سے فارغ ہو کروضو کرکے جماعت میں شریک ہوسکیں، طلبہ کی جماعت کی نماز فوت کرنے یا جماعت میں تاخیر سے پہنچنے کا سبب بننا درست نہیں ۔

مزید یہ بھی واضح رہے کہ مذکورہ جواب،سوال میں لکھی گئی نوعیت کے مطابق دیا گیا ہے۔

"رد المحتار على الدر المختار"ميں ہے:

"(والثاني) وهو الأجير (الخاص)...وليس للخاص أن يعمل لغيره.

(قوله وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا له أن يؤدي السنة أيضا. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلا وعليه الفتوى."

(ص:70،ج:6،كتاب الإجارة،مطلب ليس للأجير الخاص أن يصلي النافلة،ط:ايج ايم سعيد)

"الفتاوي الهندية"میں ہے:

"الجماعة سنة مؤكدة. كذا في المتون والخلاصة والمحيط ومحيط السرخسي وفي الغاية قال عامة مشايخنا: إنها واجبة وفي المفيد وتسميتها سنة لوجوبها بالسنة وفي البدائع تجب على الرجال العقلاء البالغين الأحرار القادرين على الصلاة بالجماعة من غير حرج."

(ص:82،ج:1،کتاب الصلاۃ،الباب الخامس فی الإمامة،الفصل الأول في الجماعة،ط:دار الفكر،بيروت)

"تعليم المتعلم في طريق التعلم"میں ہے:

"اعلم بأن طالب العلم لاينال العلم ولا ينتفع به إلا بتعظيم العلم وأهله وتعظيم الأستاذ وتوقيره.قيل: ما وصل من وصل إلا بالحرمة وما سقط من سقط إلا بترك الحرمة.وقيل: الحرمة خير من الطاعة...ومن تعظيم العلم تعظيم المعلم."

(ص:55،فصل في تعظيم العلم وأهله،ط:دار ابن كثير)

فقط واللہ أعلم 


فتوی نمبر : 144411100611

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں