بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سب سے بڑا ولی اللہ کون شخص ہے؟


سوال

کیااولیاء اللہ میں سب سے افضل وہی ہے جسے رسول کی لائی ہوئی شریعت کاسب سے زیادہ علم ہو؟ اور وہ اس کی پیروی میں سب سے آگے ہو؟

جواب

واضح رہے کہ اصولاً ہر مسلمان اللہ کا ولی ہے؛ کیوں کہ قرآنِ کریم میں متقین کو اللہ کا دوست (ولی اللہ) فرمایاگیا ہے، اور مفسرین لکھتے ہیں کہ تقویٰ کے تین درجہ ہیں،تقویٰ کا ادنیٰ درجہ کفر سے بچ کر اسلام میں داخل ہونا ہے،دوسرا درجہ ہر گناہ کے کام کو چھوڑنا ہےاور  تقویٰ کاآخری درجہ یہ ہے کہ بندہ ماسویٰ اللہ سب چیزوں کو چھوڑ کرصرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوجائے؛ لہٰذاولایت کا ادنیٰ درجہ مسلمان ہونے کا ہے،دوسرا درجہ گناہوں کو چھوڑنے اور تیسرا درجہ ہرقسم کے غیر اللہ سے دل کوہٹاکرصرف اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونے کا ہے۔

الحاصل یہ کہ شریعت کے سب سے زیادہ جاننے والے کو محض علم کی بناء پر ولی نہیں کہاجاسکتا، بلکہ ولایت کے حصول کےلیے تمام اوامر ونواہی میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے طریقوں کی  اتباع بھی ضروری ہے،چناں چہ جو شخص اتباع کی بدولت تقویٰ کے درجات حاصل کرتا رہےگا، وہ اسی ترتیب سے ولایت کے مراتب پر بھی درجہ بدرجہ چڑھتاچلاجائےگا، باقی زیرِ نظر مسئلہ میں اگر کوئی شخص شریعت مطہرہ کا زیادہ علم رکھتا ہو اور اس پر عمل پیرا ہونے میں دوسرے مسلمانوں سے آگے ہو تو  ایسا شخص اس دوسرے شخص سے افضل کہلائےگا، باقی اتباع سنت، اخلاص اور تزکیہ کے اعتبار سے کون سا ولی افضل ہے، یہ اللہ ہی کو معلوم ہے۔

سورۃ یونس میں ہے:

"اَلَا اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَ."

’’یاد رکھو اللہ کے دوستو پر نہ کوئی اندیشہ (ناک واقعہ پڑنے والا) ہے اور نہ وہ (کسی مطلوب کے فوت ہونے پر) مغموم ہوتے ہیں وہ اللہ کے دوست ہیں جو ایمان لائے اور (معاصی سے) پرہیز رکھتے ہیں۔‘‘

(سورة يونس، الآية: ٦٣،٦٢)

سورة الزمر   میں ہے:

"قُلْ هَلْ یَسْتَوِيْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ."

ترجمہ: ’’آپ کہیے کہ کیا علم والے اور جہل والے کہیں برابر ہوتے ہیں؟‘‘

(سورۃ الزمر، الآیة:٩)

تفسير البيضاوي میں ہے:

"والمتقي اسم فاعل من قولهم وقاه فاتقى. والوقاية: فرط الصيانة. وهو في عرف الشرع اسم لمن يقي نفسه مما يضره في الآخرة، وله ثلاث مراتب:

الأولى: التوقي من العذاب المخلد بالتبري من الشرك وعليه قوله تعالى: وألزمهم كلمة التقوى.

الثانية: التجنب عن كل ما يؤثم من فعل أو ترك حتى الصغائر عند قوم وهو المتعارف باسم التقوى في الشرع، وهو المعني بقوله تعالى: ولو أن أهل القرى آمنوا واتقوا.

الثالثة: أن يتنزه عما يشغل سره عن الحق ويتبتل إليه بشراشره وهو التقوى الحقيقي المطلوب بقوله تعالى: يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله حق تقاته."

(ص:٣٦، ج:١، سورۃ البقرۃ، الآية:٢، ط:دار إحياء التراث)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144507101577

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں