بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شب براءت کے روزے کا حکم


سوال

15 شعبان کا روزہ رکھنا چاہئے یا نہیں؟ 15 شعبان کی رات عبادت کرنا جائز ہے یا نہیں؟ 15 شعبان کی فضیلت کیا ہے؟

جواب

1ـــــ- ماہ ِشعبان، بالخصوص اس کی پندرہویں شب کی احادیث میں بڑی فضیلت آئی ہے۔ملاحظہ ہو:

(1) "عن معاذ بن جبل رضي الله عنه  عن النبي صلي الله عليه وسلم قال:يطلع الله تعالي الي جميع خلقه  ليلة للنصف من شعبان فيغفرلجميع خلقه الا لمشرك او مشاحن ۔رواه الطبرانی و ابن حبان في صحيحه."

(الترغيب والترهيب ،ج:2،ص:51،ط:دار ابن كثير،بيروت)

"حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ  علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :شعبان کی پندرہویں کو اللہ تعالی اپنی تمام بندوں کی طرف خصوصی رحمت ومغفرت کےساتھ تجلی فرماتے ہیں اور تمام لوگوں کی مغفرت فرمادیتے ہیں سوائے مشرک اور کینہ پرورکے ۔"

اللہ تعالی کی اس تجلی کا نزول اورخصوصی رحمت وغفران کا ظہور ہر رات کے  آخری تیسرے  حصہ میں ہوتاہے،لیکن پندرہویں شعبان کی شب  میں یہ نزول سر شام مغرب کے وقت ہی سےشروع ہوجاتاہے،اوراس رحمت وبخشش کا سلسلہ طلوع فجر تک جاری رہتاہے،اسی وجہ سے شعبان کی پندرہویں شب خصوصیت کےساتھ،  جامع ِخیروبرکات اورحاملِ فضیلت وبرتری ہوگئی ہے ۔

(2) "عن عائشة:رضي الله عنها قالت :قام رسول الله صلی الله عليه من الليل فصلی فأطال السجود حتی ظننت أنه قبض، فلما رأيت ذالك قمت حتی حركت ابهامه فتحرك فرجعت فسمعته يقول في سجوده : أعوذ بعفوك من عقابك ، وأعوذ برضاك من سخطك ، وأعوذبك منك اليك لاأحصي ثناءً عليك أنت كما أثنيت علی نفسك فلما رفع رأسه من السجود ، وفرغ من صلاته قال : يا عائشة ! أو یا حمُيراء ! أظننت أنّ النبي صلی الله عليه وسلم، قد خاس بك ؟ قلت : لاوالله يا رسول الله ! ولكني ظننت أنك قبضت لطول سجودك ، فقال : أتدرين أيّ ليلة هذه ؟ قلت : الله ورسوله أعلم ۔ قال : هذه ليلة النصف من شعبان ، ان الله عزل وجل يطّلع علی عباده في ليلة النصف فيغفر للمستغفرين ، ويرحم المسترحمين ، ويؤخر أهل الحقد كماهم." (رواه البيهقي من طريق العلاء ابن الحارث عنها،وقال:هذامرسل جيد،يعني ان العلاء لم يسمع من عائشة،والله سبحانه اعلم)

(الترغيب والترهيب،ج:2،ص:52)

"حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک  رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئےکھڑے ہوئے تو آپ نے بڑا طویل سجدہ کیا جس کی وجہ سےمجھے یہ گمان ہوگیا کہ(خدانخواستہ )آپ کی روح مبارک قبض کرلی گئی (اس اندیشہ پر)میں نے  آپ کے انگوٹھے حرکت دی تواس میں حرکت معلوم ہوئی تو میں(مطمئین ہوکر اپنی جگہ )لوٹ آئی ،اورمیں نے سنا کہ سجدہ میں آپ یہ دعا پڑھ رہے تھےأعوذبعفوك من عقابك الخ  پھر جب آپ نے سجدہ سےسر اٹھایااوراپنی نمازسےفارغ ہوگئے ،توفرمایااےعائشہ!یا،اے حمیراء!کیاتونے یہ خیال کیا کہ نبی (ﷺ)نے تیرے حق میں کمی کی ؟میں عرض کیا:بخدایہ بات نہیں تھی ،یارسول اللہ !   مجھے تو آپ کی طویل سجدہ کی بناءٰپر یہ اندیشہ ہونے لگاتھا کہ آپ وفات پاگئے ،پھر فرمایا:جانتی ہو یہ کون سی رات ہے؟میں نےعرض کیا :اللہ اوراس کےرسول ہی کو اس کے بارے میں زیاد ہ علم  ہے۔فرمایایہ شعبان کی پندرہویں شب ہے،اس رات میں اللہ تعالی اپنے بندوں پرخصوصی فضل وکرم کے لئے سمائے دنیاپر نزول اجلال فرماتاہےاورطالبان مغفرت کی بخشش اور خواستگاران رحمت پررحمتیں نچھاورکرتاہےاورکینہ ورکواس کے حال پرچھوڑدیتاہے۔"

(3) "وروي عن علي رضي الله عنه ، عن النبي ﷺ،قال: اذا كانت ليلة النصف من الشعبان ، فقوموا ليلها ، وصوموا يومها ، فان الله تبارك وتعالی ينزل فيها لغروب  الشمس الي السماء الدنيا ، فيقول : ألامن مستغفر فأغفرله ، ألامن مسترزق فأرزقه ، ألامن مبتلی فأعافيه ، ألا كذا ، ألا كذا حتی  يطلع الفجر. راوه ابن ماجه."

(الترغيب والترهيب،ج:2،ص:52)

ترجمہ:"حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ آنحضرت ﷺسےنقل کرتے ہیں، کہ آپ ﷺنے فرمایا :شعبان کی پندرہویں شب کو نوافل پڑھو اوردن کوروزہ رکھو،کیونکہ اللہ تبارک وتعالی اس شب میں سورج کے غروب ہونےکے بعد سمائے دنیا نزول اجلال فرماتےہیں،اوریہ اعلان فرماتے ہیں کہ:ہےکوئی بخشش مانگنے والا کہ میں اس کو بخش دو ں۔ہے کوئی رزق طلب کرنے والاکہ میں اس کو روزی دے دوں۔ہے کوئی پریشانی میں مبتلاکہ میں اس کو عافیت دو۔یہ سلسلہ طلوعِ فجر  تک جاری رہتا ہے۔"

مطلب یہ ہے کہ پندرہویں شعبان کی رات اور اس کادن باری تعالی سے مناجات اورطلب حاجات کا وقت ہے اس دن اللہ تعالی کی رحمت عامہ خصوصیت کے ساتھ بندوں کی طرج متوجہ ہوتی ہے  ؛اس لئےاس بابرکت وقت کوغنیمت سمجھناچاہئے  ۔

2.پندرہویں شعبان کےروزے سے متعلق کئی احادیث میں ترغیب وارد ہوئی ہے  ،جس سے اس کے دن روزہ کا ثبوت ملتاہے ،سندکےلحاظ کے اگر چہ وہ ضعیف ہے، لیکن اتنی زیادہ ضعیف نہیں جو برداشت کے قابل نہ ہو، ایسی ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ہے۔

معارف القرآن میں ہے :

" شب برات کی فضیلت کی روایات اگرچہ باعتبار سند کے ضعف سے کوئی خالی نہیں، لیکن تعدّد طُرق اور تعدّد روایات سے ان کو ایک طرح کی قوت حاصل ہوجاتی ہے، اس لئے  بہت سے مشائخ نے ان کو قبول کیاہے ؛کیونکہ فضائل ِاعمال میں ضعیف روایات پر عمل کر لینے کی بھی گنجائش ہے۔"

(معارف القرآن ،سورہ الدخان ،آیت: 3) 

بہشتی زیور میں ہے:

" شب برات کی پندرہویں اور عید( الفطر)،کے چھ دن نفل روزہ  رکھنے کا بھی اورنفلوں سے زیادہ ثواب ہے۔"

(حصہ سوم ، صفحہ :138،ط:آدم پبلشرز)

3. شب برات بلا شبہ ایک فضیلت والی رات جس کی فضیلت مذکورہ بالااوردیگر احادیث سے ثابت ہے ؛لہٰذا    اس رات میں  عبادات یعنی   نفلی نمازیں    ،قرآن کریم کی تلاوت ،ذکر ،تسبیح اور دعائیں جتنی ہوسکے کرنی چاہئے  ،لیکن یا د رہے کہ عبادت کاکوئی خاص طریقہ جیسے باجماعت نوافل  کا اہتمام اورچراغاں وغیرہ   کرنا   ثابت نہیں ہے  ۔

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144508101086

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں