بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سات ماہ کا حمل ساقط کرنا


سوال

ماں کے پیٹ میں سات ماہ کا بچّہ ہے، لیکن سونوگرافی رپورٹ کے ذریعے یہ بات معلوم ہوئی کہ بچے کے دل کے چار سیسن میں سے دو کی دیوار ہی نہیں ہے تو سات  مہینہ پیٹ میں رہنے والے بچے کے اسقاط کا کیا حکم ہوگا؟ 

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ  نے انسانی جان کے تحفظ اور احترام کی خاطر ناحق قتل کو حرام قرار دیا  ہے خواہ وہ ماں کے پیٹ میں موجود جنین ہی کیوں نہ ہو، چنانچہ جب ماں کے پیٹ میں حمل ٹھہر جائےتو اس کے بعد اس کو ساقط کرنا شرعاً جائز نہیں، بالخصوص جب حمل چار ماہ کا ہو جائے، کیوں کہ چار ماہ میں بچے کے اعضا مکمل ہو کر اس کے اندر روح ڈال دی جاتی ہے، اس لیے اس کے بعد خواہ شوہر کی اجازت سے ہو یا بغیر اجازت کے ، بہر صورت حمل کو ساقط کرنا قتلِ اولاد کے زمرے میں داخل ہونے کی وجہ سے حرام ہے۔

     لہذا صورتِ مسئولہ  میں  سات ماہ کے حمل کو ساقط کرنا شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔نیز یہ کہ جب مذکورہ بچہ چارسیسن میں سے دو دیوار نہ ہونے کے باوجود اب تک زندہ ہے تو ان شاءللہ آئندہ بھی زندہ رہے گا ،اللہ سے دعا کرے ،صدقہ خیرات کرے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"و یکره أن تسعی لإسقاط حملها، وجاز لعذر حیث لایتصور".

"(قوله: ویکره الخ) أي مطلقًا قبل التصور و بعد علی ما اختاره في الخانیة کما قد مناه قبیل الا ستبراء، وقال: إلا أنّها لاتأثم إثم القتل. (قوله: وجاز لعذر) کالمرضعة إذا ظهربه الحبل وانقطع لبنها ولیس لأب الصبي ما یستأجر به الظئر وخاف هلاك الولد، قالوا: یباح لها أن تعالج في استنزال الدم مادام الحمل مضغة أو علقة ولم یخلق له عضو، وقدروا تلك المدة بمائة وعشرین یوماً، وجاز؛ لأنّه لیس بآدمي، وفیه صیانة الآدمي، خانیة."

(کتاب الحظر والاباح،ج:۶،ص:۴۲۹،سعید)

معارف القرآن میں مفتی محمد شفیع صاحبؒ لکھتے ہیں:

"چار ماہ کے بعد اسقاط حمل قتل کے حکم میں ہے:

مسئلہ: بچوں کو زندہ دفن کردینا یا قتل کردینا سخت گناہِ کبیرہ اور ظلمِ عظیم ہے اور چار ماہ کے بعد کسی حمل کو گرانا بھی اسی حکم میں ہے؛ کیوں کہ چوتھے مہینے میں حمل میں روح پڑ جاتی ہے اور وہ زندہ انسان کے حکم میں ہوتا ہے، اسی طرح جو شخص کسی حامل عورت کے پیٹ پر ضرب لگائے اور اس سے بچہ ساقط ہوجائے تو باجماعِ امت مارنے والے پر اس کی دیت میں غرہ یعنی ایک غلام یا اس کی قیمت واجب ہوتی ہے اور اگر بطن سے باہر آنے کے وقت زندہ تھا، پھر مرگیا تو پوری دیت بڑے آدمی کے برابر واجب ہوتی ہے، اور چار ماہ سے پہلے اسقاطِ حمل بھی بدونِ اضطراری حالات کے حرام ہے، مگر پہلی صورت کی نسبت کم ہے؛ کیوں کہ اس میں کسی زندہ انسان کا قتل صریح نہیں ہے".

(ج:8،ص:682،مکتبہ معارف القرآن)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406102066

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں