بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ساس سے بوس و کنار کرنا حرام ہے اور اس سے حرمت مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے


سوال

ساس سے بوس و کنار شہوُت سے کرنا کیسا ہے؟

جواب

ساس سے شہوت کے ساتھ  بوس و کنار حرام ہے، پس اگر کسی سے ایسا قبیح عمل سر زد ہوگیا ہو، تو اس کی وجہ سے  حرمت مصاہرت ثابت ہوجائے گی اس کی بیوی اس پر  ہمیشہ کے لئے حرام ہوجائے گی، پس ایسے مرد پر لازم ہوگا کہ وہ اپنی بیوی کو اپنے نکاح سے طلاق یا آزاد یا چھوڑ دیا کے الفاظ کے ذریعہ آزاد کردے،  جس کے بعد بیوی پر عدت گزارنا لازم ہوگا، عدت کی تکمیل  کے بعد وہ کسی اور شخص سے نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔

التجريد للقدوري میں ہے:

"٢١٧٢٥ - قال أصحابنا: إذا لمس امرأة بشهوة، أو قبلها، أو نظر إلى فرجها بشهوة، حرمت عليه أمها وبنتها."

( كتاب النكاح، المباشرة فيما دون الفرج يتعلق بها التحريم، ٩ / ٤٤٦١، رقم المسألة: ١٠٥٥، ط: دار السلام - القاهرة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"المحرمات بالصهرية وهي أربع فرق: (الأولى) أمهات الزوجات وجداتهن من قبل الأب والأم وإن علون ...وكما تثبت هذه الحرمة بالوطء تثبت بالمس والتقبيل والنظر إلى الفرج بشهوة ...وإذا قبلها ثم قال: لم يكن عن شهوة أو لمسها أو نظر إلى فرجها ثم قال: لم يكن بشهوة فقد ذكر الصدر الشهيد - رحمه الله تعالى - في التقبيل يفتى بثبوت الحرمة ما لم يتبين أنه قبل بغير شهوة وفي المس والنظر إلى الفرج لا يفتى بالحرمة إلا إذا تبين أنه فعل بشهوة؛ لأن الأصل في التقبيل الشهوة بخلاف المس والنظر، كذا في المحيط. ... ذكر محمد - رحمه الله تعالى - في نكاح الأصل أن النكاح لا يرتفع بحرمة المصاهرة والرضاع بل يفسد حتى لو وطئها الزوج قبل التفريق لا يجب عليه الحد اشتبه عليه أم لم يشتبه، كذا في الذخيرة. وإذا فجر بامرأة ثم تاب يكون محرما لابنتها؛ لأنه حرم عليه نكاح ابنتها على التأبيد، وهذا دليل على أن المحرمية تثبت بالوطء الحرام وبما تثبت به حرمة المصاهرة، كذا في فتاوى قاضي خان."

( كتاب النكاح، الباب الثالث في بيان المحرمات، القسم الثاني المحرمات بالصهرية، ١ /٢٧٤ - ٢٧٦ - ٢٧٧، ط: دار الفكر )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144312100344

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں