بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ساس کو ہونٹوں پر بوسہ دینا


سوال

 میں نے اپنی ساس کے ہونٹوں کو کس کیا تو کیا میری بیوی مجھ پہ حرام ہو گئی ؟ میں نے  زنا وغیرہ نہیں کیا اور نہ ہی میں نے اس کو بنا کپڑوں کے اس کا دیکھا ہے،  کیا میری بیوی کو طلاق دوں یا توبہ سے معاف ہو جائے گا اور میرے تین بچے ہیں معصوم ، اگر میں اس کو طلاق دوں گا تو ان معصوم بچوں کا مستقبل خراب ہوگا،  اور ہمارے رواج میں اگر ایک دفعہ طلاق دے دی جائے تو زندگی بھر اس سے کوئی نکاح نہیں کرتا ۔

جواب

واضح رہے کہ فقہاء کرام  نے ہونٹوں پر بوسہ کے بارے میں لکھا ہے کہ   ہونٹوں  پر بوسہ کرنے سے  حرمتِ مصاہرت ثابت ہو جاتی ہے  اگرچہ شہوت نہ ہونے کا دعوی کرے، لہذا صورتِ مسئولہ میں   سائل نے اگر بغیر شہوت کے بھی اپنی ساس کے ہونٹوں  کا بوسہ لیا   ہے تو اس کی بیوی اس  پر ہمیشہ کے لیے  حرام ہوچکی ہے ، اس لیے سائل پر  لازم ہے کہ اپنی بیوی  کو طلاق دے کر یا نکاح سے نکالنے کے الفاظ کہہ کر خود سے جدا کردے۔ اس کے بعد بیوی کے لیے عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنا  جائز ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: على الصحيح جوهرة) الذي في الجوهرة للحدادي خلاف هذا فإنه قال لو مس أو قبل، وقال لم أشته صدق إلا إذا كان المس على الفرج والتقبيل في الفم. اهـ.

وهذا هو الموافق لما سينقله الشارح عن الحدادي، ولما نقله عنه في البحر قائلا ورجحه في فتح القدير وألحق الخد بالفم. اهـ.

وقال في الفيض: ولو قام إليها وعانقها منتشرا أو قبلها، وقال لم يكن عن شهوة لا يصدق، ولو قبل ولم تنتشر آلته وقال كان عن غير شهوة يصدق وقيل لا يصدق لو قبلها على الفم وبه يفتى. اهـ.

فهذا كما ترى صريح في ترجيح التفصيل، وأما تصحيح الإطلاق الذي ذكره الشارح، فلم أره لغيره نعم قال القهستاني: وفي القبلة يفتى بها أي بالحرمة ما لم يتبين أنه بلا شهوة ويستوي أن يقبل الفم أو الذقن أو الخد أو الرأس، وقيل إن قبل الفم يفتى بها، وإن ادعى أنه بلا شهوة، وإن قبل غيره لا يفتى بها إلا إذا ثبتت الشهوة. اهـ.

وظاهره ترجيح الإطلاق في التقبيل لكن علمت التصريح بترجيح التفصيل تأمل."

(ج:3، ص:36، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507100479

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں