بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ساس کو دیکھ کر صرف شہوت بھرے خیالات آنے سے حرمت مصاہرت ثابت نہین ہوتی


سوال

(1)ساس کو دیکھ کر اگر ذہن میں  شہوت بھرے خیالات آئیں تو کیا نکاح پر اثر ہوگا؟

(2)کس طرح کے حالات میں حرمت مصاحرت ثابت ہوتی ہے؟ آسان الفاظ میں وضاحت فرما دیں، میرے ذہن میں ہر وقت یہی خیال ہوتا ہے کہ اس طرح کرلیا یا ایسے دیکھ لیا ،اب نکاح ٹوٹ جاۓ گا،میں اس وجہ سے بہت پریشان ہوں۔

جواب

(1)ساس کو دیکھ کرصرف  شہوت بھرے خیالات آنے سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

(2)حرمتِ مصاہرت  جس طرح نکاح سے ثابت ہوجاتی ہے اسی طرح زنا  اور شرائطِ معتبرہ کے ساتھ دواعی زنا( شہوت کے ساتھ چھونے )  سے بھی ثابت ہوجاتی ہے، لہذااگر   کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرلے ، یا اس سے وطی کرلے خواہ نکاحِ صحیح کے بعد، یا نکاحِ فاسد کے بعد، یا زنا کرے، یا اس عورت کو شہوت کے ساتھ کسی حائل کے بغیر  چھولے یا شہوت کے ساتھ اس کی شرم گاہ کے اندرونی حصہ کی طرف دیکھ  لے تو حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے، یعنی اس عورت کے اصول وفروع ، مرد پر حرام ہوجائیں گے اور اس مرد کے اصول وفروع ، عورت پر حرام ہوجائیں گے۔

   ثبوت حرمت مصاہرت کی کڑی شرطیں ہیں جو فقہ و فتاوی کی کتابوں میں مفصل مذکور ہیں، آپ اصولی طور پر اس مسئلے کو سمجھنے کے بجائے جو صورت پیش آمدہ ہو اس کی پوری وضاحت لکھ کر سوال کرلیں، یا مقامی مفتی صاحب سے تفصیل بتا کر سمجھ لیں۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) حرم أيضا بالصهرية (أصل مزنيته) أراد بالزنا في الوطء الحرام (و) أصل (ممسوسته بشهوة) ولو لشعر على الرأس بحائل لا يمنع الحرارة (وأصل ماسته وناظرة إلى ذكره والمنظور إلى فرجها) المدور (الداخل) ولو نظره من زجاج أو ماء هي فيه (وفروعهن) مطلقا والعبرة للشهوة عند المس والنظر لا بعدهما وحدها فيهما تحرك آلته أو زيادته به يفتى وفي امرأة ونحو شيخ كبير تحرك قبله أو زيادته وفي الجوهرة: لا يشترط في النظر لفرج تحريك آلته به يفتى هذا إذا لم ينزل فلو أنزل مع مس أو نظر فلا حرمة به يفتي ابن كمال وغيره.

(قوله: والمنظور إلى فرجها) قيد بالفرج؛ لأن ظاهر الذخيرة وغيرها أنهم اتفقوا على أن النظر بشهوة إلى سائر أعضائها لا عبرة به ما عدا الفرج، وحينئذ فإطلاق الكنز في محل التقييد بحر.

(قوله: المدور الداخل) اختاره في الهداية وصححه في المحيط والذخيرة: وفي الخانية وعليه الفتوى وفي الفتح، وهو ظاهر الرواية لأن هذا حكم تعلق بالفرج، والداخل فرج من كل وجه، والخارج فرج من وجه والاحتراز عن الخارج متعذر، فسقط اعتباره، ولا يتحقق ذلك إلا إذا كانت متكئة بحر فلو كانت قائمة أو جالسة غير مستندة لا تثبت الحرمة إسماعيل...."

(كتاب النكاح،فصل في المحرمات،3/ 32،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100275

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں