بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ساس کی تیمارداری کا حکم


سوال

اگر ساس بیمار ہو تو کیا اس کی تیمارداری کیلئے بہو پر کیا حکم ہے؟ اگر گھر میں بیٹی ہو تو کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شرعاً بہو کا اخلاقی فریضہ بنتا ہے کہ اپنے شوہر کے ماں باپ کو اپنے ماں باپ کا درجہ دے کر ان کی خدمت کرے۔بہوکو چاہیے کہ اپنے سسرال والوں کے ساتھ حسنِ اخلاق سے پیش آئے اور  ان کے دکھ درد بیماری میں جتناممکن ہو ان کے کام آئے، چاہے ساس کی اپنی بیٹیاں موجود ہوں یا نہیں، اس سے ساس کے دل میں اس کی قدر ھی بڑھے گی، اور ثواب اور قربِ خداوندی کا بھی باعث ہوگا۔

فتاوی محمودیہ میں ایک سوال کے جواب میں ہے:

"شرعاً ہندہ کے ذمہ شوہر کی ماں کی خدمت واجب نہیں، لیکن اخلاقی طور پر اس کا خیال کرنا چاہیے کہ وہ اس کے شوہر کی ماں ہے، تو اپنی ماں کی طرح اس کو بھی راحت پہنچانے کا خیال رکھے اور شوہر کی اطاعت کرے، آخر جب ہندہ کو ضرورت پیش آتی ہے، تو شوہر کی ماں  اس کی خدمت کرتی ہے، اس طرح آپس کے تعلقات خوشگوار رہتے ہیں اور مکان آباد رہتا ہے، البتہ شوہر کو بھی چاہیے کہ اپنی بیوی سے نرمی اور شفقت کا معاملہ کرے، اس کو سمجھائے کہ میں تمہاری ماں کا احترام کرتا ہوں اور انکو اپنی ماں کی طرح سمجھتا ہوں، تم بھی میری ماں کو اپنی ماں کی طرح سمجھو۔ نیز بیوی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالے۔فقط واللہ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔"

(باب احکام الزوجین، ج:18،  ط:ادارۃ الفاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406101747

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں