بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ساس کا بہو کی اجازت کے بغیراس کی چیزیں استعمال کرنا


سوال

کیا ساس بہو کی اجازت کے بغیر بہو  کی  چیزیں استعمال کرسکتی ہے، جب کہ وہ چیزیں میکے والوں نے دی ہو؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں بہو کے گھر والوں نے جو اشیاء بہوکو بطورِ جہیز دی ہیں، اس کی مالکن خود بہو ہی ہے، اس لیے ساس کا بہو کا سامان اس کی اجازت کے بغیر استعمال کرنا  جائز نہیں ہے، البتہ اگر ان کا آپسی تعلق ایسا بے تکلفی اور محبت والا ہو کہ بہو کو ساس کا اس کی چیزوں کااستعمال کرنا گراں نہ گزرے،بلکہ وہ اس سے خوش ہوتی ہو،تو پھر اس کی چیزوں کا اس کی اجازت کے بغیر استعمال کرنا جائز ہوگا۔

مشكاة المصابيح ميں ہے:

"و عن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألا لاتظلموا ألا لايحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه» . رواه البيهقي في شعب الإيمان والدارقطني في المجتبى."

(كتاب البيوع، باب الغصب والعارية، ج:2، ص:889، ط:المكتب السلامي)

ترجمہ : اور حضرت  ابو حرہ رقاشی رضی اللہ عنہ اپنے چچا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا" خبردار!کسی پر ظلم نہ کرنا، جان لو! کسی بھی دوسرے شخص کا مال اس کی  مرضی وخوشی کے بغیر حلال نہیں"۔

شرح المجلہ میں ہے:

"لايجوز لإحدا أن يتصرف في ملك الغير بلاإذنه أو وكالة أو ولاية عليه وإن فعل كان ضامنا."

(المقالة الثانية في بيان القواعد الفقهية، ج:1، ص:51، رقم المادة:96، ط: رشيدية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"لا يجوز التصرف في مال غيره بلا إذنه ولا ولايته إلا في مسائل مذكورة في الأشباه."

(‌‌كتاب الغصب، مطلب فيما يجوز من التصرف بمال الغير بدون إذن صريح، ج:6، ص:200، ط: سعيد)

فتاوی ٰشامی میں ہے:

"‌لا ‌يجوز ‌لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."

(كتاب الحدود، ج:4، ص:61، ط: سعيد)

القواعد الفقهية وتطبيقاتها في المذاهب الأربعة میں ہے:

"والأصل أنه ‌لا ‌يجوز ‌لأحد ‌أن ‌يتصرف ‌في ‌ملك ‌غيره أو حقه بغير إذن، ويكون التصرف موقوفاً على إذن صاحب الحق، فإن أذن له مسبقاً كان التصرف صحيحاً باتفاق العلماء."

(‌‌الباب الثالث  القواعد الكلية في المذهب الحنفي، الإجازة اللاحقة كالوحالة السابقة، ج:1، ص:597، ط:دار الفكر دمشق)

مرعاۃ المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"‌السكوت ‌في ‌موضع ‌البيان إنما هو إذا لم يوجد حكم المتنازع فيه من موضع آخر، وأما إذا وجد حكمه صريحاً موافقاً أو مخالفاً فلا اعتبار له."

(كتاب الصلاة، باب الركوع، الفصل الأول، ج:3، ص:189، ط:إدارة البحوث العلمية والدعوة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507101598

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں