بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ساس اور جٹھانی کے ظلم کے باعث الگ رہائش کے مطالبہ کا حکم


سوال

سوال یہ ہے کہ میری ساس اور جٹھانی کا سلوک میرے ساتھ ٹھیک نہیں ہے ۔میری شادی کو تقریبًا 1.5 سال کا عرصہ ہو گیا ہے ۔ایک بیٹا ہے ۔ایام حمل میں میرے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے میرے بیٹے کا جسم، آنکھوں کا اوپری حصہ ،سر کا پچھلا حصّہ اور ٹانگیں جھلسی ہوئی ہیں  اور دماغی اذیت  دی جاتی تھی۔ پھر ایام نفاس میں بھی ذلیل کیا گیا ۔ٹھنڈا پانی دیا گیا یہ کہہ کر کہ 2450 کا سلنڈر آتا ہے ۔اس وجہ سے آپریشن والا حصّہ اور ٹانگیں سن ہیں ابھی تک۔ اور بچہ کو بھی نمونیا رہا ہے ،جب اپنے شوہر سے کہتی تھی ڈاکٹر کو دکھانے کو تو ساس کہتی تھی کہ جٹھانی کہتی کہ چھوٹے بچوں کا اللہ وارث ہوتا ہے ۔خود ہی ٹھیک ہو جائے گا۔ پھر  جب میكے آ کر دکھایا تو علاج کے بعد 2  ماہ لگے اسے ٹھیک ہونے میں ۔ میرے بارے میں ساس کہتی ہے کہ لڑکیاں آپریشن کہ بعد8  روز میں اٹھ کر گھر کہ کام کرنے لگتی ہیں ۔جب کہ ٹانکے بھی 10 وین دن کھلے تھے ۔کوئی   ڈاکٹر کہ پاس نہیں  جانا یہ بہانے کر رہی ہے۔ اب 4 ماہ سے بچے کے ساتھ اپنے والد کہ گھر پر ہوں ۔اس عرصہ میں شوہر 4,5 بار  ملنے آئے ہیں لیکن کوئی بات نہیں کرتے بس بچہ اٹھا کر کھیل کر چلتے بنتے ہیں۔ایک ماہ پہلے سسر لینے آئے تھے والد نے انکار کر دیا اور الگ گھر کا مطالبہ رکھا ہے ۔وہاں میرے ساتھ بہت برا سلوک ہوتا ہےجیسے میں کوئی اچھوت ہوں۔کہیں آنے جانے بھی نہیں دیتے ۔میرے شوھر کو بھی پاس نہیں  آنے دیتے۔ اسے سارا دن دکان جو اس کہ والد کی ہے وہاں مصروف رکھتے ہیں ۔شادی سے پہلے ہمیں بتایا تھا کہ یہ دکان میرے شوہر کی ہے۔اسی کريانے کی دکان سے گھر چلتا ہے ایک جیٹھ ساتھ رہتا ہے وه اپنی کمائی کا کچھ نہیں  دیتا۔ اور ایک الگ ہے پر اس کا راشن بھی یہیں سے جاتا ہے۔اور ہمارے لیے کچھ نہیں ہے۔بچے کو کپڑے بھی نند کی بیٹی کہ پرانے پہنائے، مجھے بتائیں میں کیا کروں دین کیا کہتا ہے؟اس کی مالی حالت اچھی ہے3 گاڑیاں اور 2 موٹر سائیکل ہیں۔جن پر جیٹھ اور دیور کا قبضہ رہتا ہے۔شوہر کو میسر ہی نہیں ہیں یہ چیزیں حا لانکہ اسی کی کمائی کی ہیں۔ تو کیا ایسے میں الگ گھر کا مطالبہ درست ہے۔یا پھر مجھے کیا کرنا چاہے جو بھی کہا ہے اللہ کو حاضر جان کر سچ کہا ہے۔

جواب

صورت مسئولہ میں اگر سائلہ کا بیان واقعہ درست ہے اور اس کی ساس اور  جٹھانی اس پر ظلم کرتے ہیں تو سائلہ کے لیے الگ گھر کا مطالبہ درست ہے اور ایسے حالات میں سائلہ کے شوہر کو بھی چاہیے کہ سائلہ کے لیے الگ رہائش کا انتظام کرے اور الگ رہائش کے ساتھ والدین کی خدمت بھی کرتا رہے، نہ والدین کی حق تلفی کرے اور نہ بیوی کی حق تلفی ہونے دے۔ نیز سائلہ کے شوہر کو چاہیے کہ اپنی وسعت کے مطابق بیوی بچوں پر بھی مالی وسعت کرے اور والدین کو خرچہ کی حاجت ہو تو ان پر بھی خرچ کرے، ایسا نہ کرے کہ سب کچھ والدین اور بھائیوں پر خرچ کردے اور بیوی بچوں کو کچھ نہ دے اور  یہ بھی نہ ہو کہ سب کچھ والدین کو دے  بلکہ اعتدال کے ساتھ سب کے مالی حقوق ادا کرے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وكذا تجب لها السكنى في بيت خال عن أهله) سوى طفله الذي لا يفهم الجماع وأمته وأم ولده (وأهلها) ولو ولدها من غيره (بقدر حالهما) كطعام وكسوة وبيت منفرد من دار له غلق. زاد في الاختيار والعيني: ومرافق، ومراده لزوم كنيف ومطبخ، وينبغي الإفتاء به بحر (كفاها) لحصول المقصود هداية. وفي البحر عن الخانية: يشترط أن لا يكون في الدار أحد  من أحماء الزوج يؤذيها، ونقل المصنف عن الملتقط كفايته مع الأحماء لا مع الضرائر فلكل من زوجتيه مطالبته ببيت من دار على حدة

قوله ومفاده لزوم كنيف ومطبخ) أي بيت الخلاء وموضع الطبخ بأن يكونا داخل البيت أو في الدار لا يشاركها فيهما أحد من أهل الدار. قلت: وينبغي أن يكون هذا في غير الفقراء الذين يسكنون في الربوع والأحواش بحيث يكون لكل واحد بيت يخصه وبعض المرافق مشتركة كالخلاء والتنور وبئر الماء ويأتي تمامه قريبا

(قوله وفي البحر عن الخانية إلخ)....قلت: وفي البدائع: ولو أراد أن يسكنها مع ضرتها أو مع أحمائها كأمه وأخته وبنته فأبت فعليه أن يسكنها في منزل منفرد؛ لأن إباءها دليل الأذى والضرر ولأنه محتاج إلى جماعها ومعاشرتها في أي وقت يتفق لا يمكن ذلك مع ثالث؛ حتى لو كان في الدار بيوت وجعل لبيتها غلقا على حدة قالوا ليس لها أن تطالبه بآخر. اهـ فهذا صريح في أن المعتبر عدم وجدان أحد في البيت لا في الدار"

(کتاب الطلاق، باب النفقہ، ج نمبر ۳ ص نمبر ۵۹۹،ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309101255

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں