بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سر کے بال کاٹنے کا حکم


سوال

سر کے بال اس  طرح کٹوانا   کہ کچھ   حصے میں بال زیادہ ہوں اور   کچھ   حصے میں کم تو اس بارے میں شریعت کا حکم کیا ہے؟ جب کہ بعض علماء کو بھی دیکھا کہ وہ  سائیڈ سے کچھ بال کم کرواتے ہیں اور یہ  کہتے ہیں شادی کے بعد کچھ چیزیں جائز ہوجاتی ہیں، اس کی بھی تفصیل فرمادیں! 

جواب

سر کے بالوں کے بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ یا تو  سر کے پورے بال رکھے جائیں یا پورے کاٹے جائیں، سر کے کچھ بال کاٹنا اور کچھ چھوڑدینا منع ہے، اسے حدیث میں "قزع" سے تعبیر کرکے اس کی ممانعت کی گئی ہے،  اور  "قزع"   کی مختلف صورتیں ہیں، حاصل ان کا یہی ہے کہ سر کے بال کہیں سے کاٹے جائیں اور کہیں سے چھوڑ دیے  جائیں۔

البتہ  سر کے بالوں کی  تحدید  کے  لیے اور سر کے بالوں کو گردن کے بالوں  سے  جدا کرنے کے لیے سر کے بالوں کے آخر سے حلق کیا جائے تو اس کی گنجائش ہوگی، اسی طرح کان کے اطراف کے بال جو کان پر لگ رہے ہوں انہیں برابر کرنے کے لیے اطراف سے معمولی بال کاٹ لینا جیسا کہ عام طور پر اس کا معمول ہے کہ سر  کے بالوں کو متعین کرنے اور اس کو دوسرے سے جدا کرنے کے لیے  کان کے اوپر بلیڈ لگاتے ہیں تو اس کی گنجائش ہے، تاہم یہ خیال رہے کہ زیادہ اوپر سے بلیڈ نہ لگایا جائے ورنہ ”قزع“ میں داخل ہوگا، حاصل یہ ہے کہ سر کے اطراف کے بال اگر اس طرح کاٹے جائیں کہ ان کی وجہ سے  سر کے  اس حصہ کے  بال کم اور باقی سر کے بال بڑے ہوں تو یہ درست نہیں ہے، اور اگر سر کے تمام بال برابر ہوں اور اطراف سے تحدید کے لیے انہیں برابر کیا جائے تو یہ جائز ہے۔ یہ حکم شادی سے پہلے کا بھی ہے اور شادی کے بعد کا بھی، اور علماء کے لیے بھی یہی حکم ہے۔ 

الفتاوى الهندية (5/ 357):

"يكره القزع وهو أن يحلق البعض ويترك البعض قطعاً مقدار ثلاثة أصابع، كذا في الغرائب." 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111201333

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں