بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سالے کی بیوہ سے نکاح کا حکم


سوال

1۔ کیا  میں اپنے سالے کے مرنے کے بعد اس کی بیوی سے نکاح کر سکتا ہوں ۔

2۔ کیا وہ بیوہ اپنے مرضی سے نکاح کر سکتی ہے  یا اس کے والدین اس کا نکاح کریں گے ؟

جواب

1۔  سالے کی بیوی اگر آپ کی غیر محرم ہے تو سالے کے  انتقال کے بعد ان کی عدت مکمل ہونے کے بعد آپ کے لیے ان کی بیوہ سے نکاح کرنا جائز ہے۔

سورۂ بقرہ  میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَٱلَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَٰجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍۢ وَعَشْرًا ۖ فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِىٓ أَنفُسِهِنَّ بِٱلْمَعْرُوفِ ۗ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ۔ ( البقرة: 234)

ترجمہ :’’اور جو لوگ تم میں سے وفات پاجاتے ہیں اور بیبیاں چھوڑ جاتے ہیں وہ بیبیاں اپنے آپ کو (نکاح وغیرہ سے) روکے رکھیں چار مہینے اور دس دن پھر جب اپنی میعاد (عدت) ختم کرلیں تو تم کو کچھ گناہ نہ ہوگا ایسی بات میں کہ وہ عورتیں اپنی ذات کے لیے کچھ کاروائی (نکاح کی) کریں قاعدے کے موافق اور اللہ تعالیٰ تمہارے تمام افعال کی خبر رکھتے ہیں  ‘‘۔

2۔ حیاداری کا تقاضا  یہ ہے  کہ عورت کی طرف سے اس کے محارم میں سے کوئی وکیل بن کر ایجاب یا قبول کرے، لیکن اگر کوئی عاقلہ بالغہ خاتون جو کہ بیوہ یا طلاق یافتہ بھی ہو، وہ اپنا نکاح خود کر لے تو ایسا نکاح نافذ ہو جائے گا، البتہ اگر نکاح غیر کفو میں ہو تو اولاد ہونے سے پہلے ولی کو اعتراض کا حق ہوگا۔

بدائع الصنائعمیں ہے:

"الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلاً بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول، سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر، غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض".

(کتاب النکاح، فصل ولایة الندب والاستحباب فی النکاح2/ 247ط: سعید )

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ثم المرأة إذا زوجت نفسها من غير كفء صح النكاح في ظاهر الرواية عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وهو قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - آخراً وقول محمد - رحمه الله تعالى - آخراً أيضاً، حتى أن قبل التفريق يثبت فيه حكم الطلاق والظهار والإيلاء والتوارث وغير ذلك، ولكن للأولياء حق الاعتراض ... وفي البزازية: ذكر برهان الأئمة أن الفتوى في جواز النكاح بكراً كانت أو ثيباً على قول الإمام الأعظم، وهذا إذا كان لها ولي، فإن لم يكن صح النكاح اتفاقاً، كذا في النهر الفائق، ولا يكون التفريق بذلك إلا عند القاضي، أما بدون فسخ القاضي فلا ينفسخ النكاح بينهما". 

( کتاب النکاح، الباب الخامس في الأکفاء فی النکاح،1/ 292 ط: رشیدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100595

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں