بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سال کے آخر میں کل سرمایہ نصاب سے کم ہو اور سال کے بعد تجارتی قرض وصول کرنا ہو تو زکوٰۃ واجب ہوگی؟


سوال

میرا موبائل پارٹس کے ہول سیل کا کام ہے، میں الحمدللہ صاحبِ نصاب ہوں، پچھلے دس سالوں سے زکوٰۃ دیتا ہوں، ہر سال رمضان میں زکوٰۃ نکالتا ہوں، پچھلے سال2023ء کے  رمضان میں میرے پاس دکان کا سامان اور نقد روپے ملاکر کل تقریباً 20 لاکھ  روپے تھے، جس کی میں نےزکوٰۃ ادا کردی تھی، البتہ اس سال رمضان سے پہلے 26 دسمبر 2023ء کو صدر موبائل مارکیٹ میں جو آگ لگی، اس میں میری دکان بھی متاثر ہوئی، اور تقریباً سارا مال جل گیا، جب میں نے حساب لگایا تو کل 50 ہزار روپے کا مال بچا تھا، اور میرے پاس جو نقد رقم تھی وہ قرضوں میں چلی گئی، اور میرے پاس کل 70 ہزار روپے باقی رہ گئے، اُس وقت جمادیٰ الاخریٰ کا مہینہ چل رہا تھا، پھر میں نے دوبارہ کام شروع کیا، ادھار پر مال لے کر آگے بیچنے لگا، پھر اللہ کے فضل سے مجھے ایک دو بڑے سودے لگے، جس میں تقریباً 90 ہزار روپے تک میرا سرمایہ چلا گیا، پھر شعبان میں ایک لوکل موبائل کمپنی کے ساتھ سودا ہوا، جسے میں نے بڑی تعداد میں سامان بیچا، اُس میں مجھے تقریباً 60  ہزار روپے کا نفع ہوگا، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مجھے ابھی تک اس کی پیمنٹ نہیں ملی ہے، پیمنٹ اس رمضان کے بعد ملے گی۔

تو اب سوال یہ ہے کہ کیا مجھ پر زکوٰۃ لازم ہے؟ اگر ہے تو میرے پاس تو فی الحال 90 ہزار روپے ہیں، 60 ہزار روپے  رمضان کے بعد ملیں گے، تو کیا کل رقم کی زکوٰۃ ابھی ادا کرنی ہوگی یا بعد میں بھی کرسکتا ہوں؟ 

وضاحت: سائل نے بتایا کہ 60 ہزار روپے اس کا نفع ہے، اصل سودے کی رقم تو 1100000 روپے ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں آپ پر زکوٰۃ واجب ہے، البتہ زکوٰۃ ادا کرنے میں اختیار ہے، چاہیں  تو ابھی کل ایک لاکھ 50 ہزار روپے کی زکوٰۃ نکال لیں، یا  چاہیں  تو 90ہزار روپے کی ابھی نکالیں اور 60 ہزار روپے کی زکوٰۃ وصول ہونے کے بعد نکال لیں۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وجملة الكلام في الديون أنها على ثلاث مراتب في قول أبي حنيفة: دين قوي، ودين ضعيف، ودين وسط كذا قال عامة مشايخنا أما القوي فهو الذي وجب بدلا عن مال التجارة كثمن عرض التجارة من ثياب التجارة، وعبيد التجارة، أو ‌غلة ‌مال ‌التجارة ولا خلاف في وجوب الزكاة فيه إلا أنه لا يخاطب بأداء شيء من زكاة ما مضى ما لم يقبض أربعين درهما، فكلما قبض أربعين درهما أدى درهما واحدا."

(كتاب الزكاة، فصل الشرائط التي ترجع إلى المال،  ٢/ ١٠،  ط:  دار الكتب العلمية)

فتاویٰ  شامی میں ہے:

"(و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصاباً وحال الحول، لكن لا فوراً بل (عند قبض أربعين درهماً من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهماً يلزمه درهم.

قال عليه في الرد: (قوله: عند قبض أربعين درهماً) قال في المحيط؛ لأن الزكاة لاتجب في الكسور من النصاب الثاني عنده ما لم يبلغ أربعين للحرج، فكذلك لايجب الأداء ما لم يبلغ أربعين للحرج. وذكر في المنتقى: رجل له ثلثمائة درهم دين حال عليها ثلاثة أحوال فقبض مائتين، فعند أبي حنيفة يزكي للسنة الأولى خمسة وللثانية والثالثة أربعة أربعة من مائة وستين، ولا شيء عليه في الفضل؛ لأنه دون الأربعين. اهـ"

(کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ المال، ٢/ ٣٠٥، ط:سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"وعندهما ‌الديون ‌كلها ‌سواء تجب الزكاة قبل القبض وكلما قبض شيئا زكاه قل أو كثر إلا دين الكتابة والسعاية ... قال الولوالجي: وهذا كله إذا لم يكن عنده مال آخر للتجارة، فأما إذا كان عنده مال آخر للتجارة يصير المقبوض من الدين الضعيف مضموما إلى ما عنده فتجب فيها الزكاة، وإن لم يبلغ نصابا، وكذا في المحيط، وفيه لو كان له مائتا درهم دين فاستفاد في خلال الحول مائة درهم فإنه يضم المستفاد إلى الدين في حوله بالإجماع وإذا تم الحول على الدين لا يلزمه الأداء من المستفاد ما لم يقبض أربعين درهما، وعندهما يلزمه، وإن لم يقبض منه شيئا."

(كتاب الزكاة، ٢/ ٢٢٤، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144509100346

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں