کیا فرماتےہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کےبارے میں کہ پچھلے رمضان کو ہم نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کی تھی ، اب اس سال ہمارے پاس ستائیس(27)لاکھ روپے ہیں اور ہم نے ایک مکان تینتیس(33)لاکھ روپے کا رہائش کے لیے خریدا ہے ، اور رمضان سے پہلے تین(3)لاکھ روپے بیعانہ دےدیا ،اور چھ (6)لاکھ روپے ادھار لیں گے ،اور عید کے بعد ہمیں بقیہ تیس(30)لاکھ روپے دینے ہوں گے۔(فی الحال اس مکان پر قبضہ مکان بیچنے والوں کا ہے،ایگریمنٹ اور کاغذی کاروائی ہوچکاہے،رقم کی ادائیگی اور قبضہ کےلیے تین مہینے کا وقت مقرر ہے،مگر جیسے ہی مکان بیچنے والوں کو کوئی دوسرا مکان مل جائے تو وہ حضرات سائل سے وقتِ مقررہ سے پہلے بھی رقم لے کر قبضہ انہیں دے سکتے ہیں)
اب سوال یہ ہے کہ ہمارے پاس ابھی جو چوبیس(24)لاکھ روپے ہیں اس کی زکوٰۃ اسی رمضان میں دینی ہوگی یا نہیں ؟
واضح رہے کہ صورتِ مسئولہ میں سائل نےموجود رقم سے سال مکمل ہونے سے پہلے مکان خریدا ہے، لہٰذا اس پر اس ر قم کی زکوٰۃ کی ادائیگی واجب نہیں ہوگی،نیز مذکورہ صورت میں یہ رقم سائل پر دین (یعنی سائل کے ذمّےواجب الاداء)بھی ہے ،اوردین(واجب الاداء) مال پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی۔
مجمع الانھر فی شرح ملتقی الابحر میں ہے:
"(حولي) وهو أن يتم الحول عليه وهو في ملكه لقوله عليه الصلاة والسلام «لا زكاة في مال حتى يحول عليه الحول» سمي حولا لأن الأحوال تحول فيه وإلى الثاني بقوله (فارغ) صفة نصاب (عن الدين) والمراد دين له مطالب من جهة العباد سواء كان الدين لهم أو لله تعالى وسواء كانت المطالبة بالفعل أو بعد زمان فينتظم الدين المؤجل ولو صداق زوجته المؤجل إلى الطلاق أو الموت وقيل: لا يمنع لأنه غير مطالب به عادة بخلاف المعجل وقيل: إن كان الزوج على عزم الأداء منع وإلا فلا لأنه يعد دينا وأما الدين الذي لا مطالب له من جهة العباد كالنذر وصدقة الفطر ونحوهما فلا يمنع لأنه لا يطالب بها في الدنيا فصار كالمعدوم في أحكامها".
(کتاب الزکوٰۃ ، ج:1 ، ص:193 ،ط:دار احیاء التراث العربی بیروت - لبنان)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"(ومنها الفراغ عن الدين) قال أصحابنا - رحمهم الله تعالى -: كل دين له مطالب من جهة العباد يمنع وجوب الزكاة سواء كان الدين للعباد كالقرض وثمن البيع وضمان المتلفات وأرش الجراحة، وسواء كان الدين من النقود أو المكيل أو الموزون أو الثياب أو الحيوان وجب بخلع أو صلح عن دم عمد، وهو حال أو مؤجل أو لله - تعالى - كدين الزكاة فإن كان زكاة سائمة يمنع وجوب الزكاة بلا خلاف بين أصحابنا - رحمهم الله تعالى - سواء كان ذلك في العين بأن كان العين قائما أو في الذمة باستهلاك النصاب، وإن كان زكاة الأثمان وزكاة عروض التجارة ففيها خلاف بين أصحابنا فعند أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى - الجواب فيه كالجواب في السوائم ........وهذا كله إذا كان الدين في ذمته قبل وجوب الزكاة أما إذا لحقه الدين بعد وجوب الزكاة فلم تسقط الزكاة هكذا في الجوهرة النيرة. و أما الدين المعترض في خلال الحول فذكر في العيون أن عند محمد - رحمه الله تعالى - يمنع وجوب الزكاة وعند أبي يوسف لا يمنع كذا في محيط السرخسي".
(کتاب الزکوٰۃ ، الباب الاول فی تفسیر الزکوٰۃ و صفتھا و شرائطھا ، ج: 1 ، ص:173 ، ط: المطبعۃ الکبری الامیریۃ بولاق مصر)
فقط و اللہ اعلم
فتوی نمبر : 144508102448
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن