بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صاف ستھری جیکٹ نئے کپڑوں کے ساتھ رکھ کر بیچنا


سوال

1 : ایک شخص مستعمل جیکٹ  ( جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ بیرون ممالک میں کم استعمال شدہ جیکٹ ہندوستان آتی ہیں اور وہ یہاں آکر تھوک میں بیچی جاتی ہیں،  ان میں بہترین کوالٹی کی بھی جیکٹس ہوتی ہیں اور اچھی کوالٹی کی بھی جس کو پہنا جا سکے) تو ان میں سے بہترین کوالٹی کی جیکٹ جو دکھنے میں نئی جیسی ہوں ، ان کو نئے میں ملا کر بیچنا جائز ہے یا نا جائز،  جب کہ اس کی صورت یہ ہے کہ نہ مشتری کو یہ بتایا جارہا ہے کہ وہ نئی ہے یا پرانی،  نہ وہ دکھنے میں پرانی لگ رہی ہیں؟

2 :  اگر کسی شخص کی مارکیٹ میں کپڑے کی دکان ہے، اس کپڑے کی لاگت مثلاً اسے ٣٠٠ کی پڑتی ہے تو وہ اس پر کتنا منافع کما سکتا ہے،  جب کہ اس کے ذمہ دکان کا کرایہ بل اور لیبر کا ماہانہ بھی ہو؟

جواب

1 : صورتِ  مسئولہ میں مذکورہ جیکٹ کو نیا کہہ کر بیچنا ناجائز ہے؛ کیوں کہ اس میں دھوکا ہے، البتہ اگر اسے نیا کہہ کر نہیں بیچا جارہا تو بغیر کچھ کہے بیچنا جائز ہے۔ اگر نئے مال میں ملاکر بیچا جارہاہے اور خریدار اسے نیا ہی سمجھ کر لے رہاہے تو اس کے سامنے وضاحت ضروری ہے۔

2 : عمومی اشیاء اور عمومی حالات میں کسی چیز کو خریدنے کے بعد آگے فروخت پر نفع کی کوئی مقدار شرعاً متعین نہیں ہے۔

تاہم حرص وہوس شریعت میں ایک ناپسندیدہ خلق (وصف) ہے، دنیا کی محبت اور لالچ  دل کے گناہ ہیں، اس لیے عمومی احوال میں بھی مارکیٹ ریٹ  پر چیز فروخت کرنی چاہیے، نیز اتنے نرخ پر چیز فروخت کرنے میں حرج نہیں کہ ضروری اخراجات (کرایہ،بل، لیبر وغیرہ) نکال کر تاجروں کے عرف  میں معتدل نفع سمجھا جائے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206201409

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں