بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایس آر اے آن لائن کمپنی کا حکم


سوال

 آن لائن انوسٹمنٹ کی بہت سی کمپنیاں اس وقت انٹرنیٹ پر کام کر رہی ہیں جیسے کے ایس آر اے، ہر کمپنی کی الگ الگ شرائط و ضوابط ہیں میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ ایک ایسی کمپنی میں انوسٹمنٹ کرنا جو آپ کو روزانہ کی بنیاد پر فِکس فیصد دیتی ہے اور ہمارا پیسہ الگ الگ کاروباری کاموں میں لگاتی ہیں جیسے کہ اسٹاک مارکیٹ، شیئر مارکیٹ، کرپٹو کرنسی ٹریڈنگ وغیرہ،  اور 5 لیول تک کمیشن بھی دیتی ہے ریفر کرنے پر،  یعنی آپ کسی کو کمپنی میں لاؤ تو وہ جب بھی انوسٹمنٹ کرے گا آپ کو اس کی انوسٹمنٹ کا ایک خاص حصہ ملے گا اور اگر وہ کسی کو ریفر کرے تو اس کا بھی ایک خاص حصہ اس کو اور آپ کو دونوں کو ملتا ہے،  اسی طرح پانچ لیول تک چلتا رہتا ہے اور اس کمیشن کے بدلے میں ہمارا کام ان کی راہ نمائی ہر ممکن طریقے سے ہوتی ہے جیسے کہ سٹریٹیجی بنانا، کام کا صحیح طریقہ سکھانا وغیرہ وغیرہ۔

تو کیا فرماتے ہیں علمائے کرام کہ اس طرح کا کمیشن لینا جائز ہے یا نہیں؟  اور اگر نہیں ہے تو وجہ کیا ہے اور انوسٹمنٹ کرنا کیسا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  سائل نے جس کمپنی کا طریقہ کار ذکر  کیا ہے،اس طرح کمیشن لینا اور  اس کمپنی  میں انوسٹمنٹ کرنا  مندرجہ ذیل وجوہات کی  بنا پر جائز نہیں ہے۔

1۔مذکورہ   کمپنی " ڈیجیٹل کرنسی" یا "کرپٹو کرنسی" کے ذریعے تجارت بھی کرتی ہے جب کہ  "کرپٹو کرنسی"  میں کاروبار  کرنا جائز نہیں ہے اور اس سے حاصل ہونے والا نفع بھی حلال نہیں ہے۔

2۔شرعی طور پر دلال (ایجنٹ) کو اپنی دلالی کی اجرت (کمیشن) ملتی ہے جو کہ کسی اور کی محنت کے ساتھ مشروط نہیں ہوتی، لیکن مذکورہ کمپنی کے ممبر کی اجرت دوسرے  ما تحت ممبران کی محنت پر مشروط ہوتی ہے جو کہ  شرعاً درت نہیں۔

3۔کمیشن در کمیشن بغیر عمل کے اجرت کا ملنا ، اس کی تفصیل یہ ہے کہ  مذکورہ کاروبار میں جب کوئی شخص اس کمپنی میں کسی کو مدعو (ریفر) کرتا ہےاور وہ ممبر مزید آگے ممبرز بناتا ہے تو ان آگے والے ممبران کی لین دین میں اس شخص کا کوئی ایسا عمل نہیں ہوتا جس کا تعلق براہ راست کمپنی اور خریدار کے لین دین سے ہو، ایسی صورت میں یہ شخص جو اجرت لیتا ہے وہ بغیر کسی عمل کے ہوتی ہے،یا ابتدا میں بنائے گئے ممبر کے عمل کے نتیجے میں بار بار اجرت ملتی ہے اور ان دونوں صورتوں میں اجرت جائز نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: مالا أو لا) إلخ، المراد بالمال ما يميل إليه الطبع ويمكن ادخاره لوقت الحاجة، والمالية تثبت بتمول الناس كافة أو بعضهم، والتقوم يثبت بها وبإباحة الانتفاع به شرعا؛ فما يباح بلا تمول لايكون مالًا كحبة حنطة وما يتمول بلا إباحة انتفاع لا يكون متقوما كالخمر، وإذا عدم الأمران لم يثبت واحد منهما كالدم بحر ملخصًا عن الكشف الكبير.

وحاصله أن المال أعم من المتمول؛ لأن المال ما يمكن ادخاره ولو غير مباح كالخمر، والمتقوم ما يمكن ادخاره مع الإباحة، فالخمر مال لا متقوم،» ... وفي التلويح أيضًا من بحث القضاء: والتحقيق أن المنفعة ملك لا مال؛ لأن الملك ما من شأنه أن يتصرف فيه بوصف الاختصاص، والمال ما من شأنه أن يدخر للانتفاع وقت الحاجة، والتقويم يستلزم المالية عند الإمام والملك ... وفي البحر عن الحاوي القدسي: المال اسم لغير الآدمي، خلق لمصالح الآدمي وأمكن إحرازه والتصرف فيه على وجه الاختيار، والعبد وإن كان فيه معنى المالية لكنه ليس بمال حقيقة حتى لايجوز قتله وإهلاكه."

(کتاب البیوع ج:4 ص:501، ط:سعید)

البنایہ شرح الہدایۃ میں ہے:

"وقد نهى النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عن بيع الملامسة والمنابذة. ولأن فيه تعليقًا بالخطر... م: (ولأن فيه) ش: أي ولأن في كل واحد من هذه البيوع م: (تعليقا) ش: أي تعليق التمليك م: (بالخطر) ش: وفي " المغرب "، الخطر: الإشراف على الهلاك، قالت الشراح: وفيه معنى القمار لأن التمليك لا يحتمل التعليق لإفضائه إلى معنى القمار."

(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، ج:7، ص:158، ط: دار الكتب العلمية)

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"وهو ‌قمار فلا يجوز لأن القمار من القمر الذي يزاد تارة، وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه فيجوز الازدياد والانتقاص في كل واحد منهما فصار قمارا. وهو حرام بالنص."

(مسائل شتى، ج:6، ص:227، ط:دار الكتاب الإسلامي)

الموسوعة الفقهية الكويتية میں ہے:

"وقال ابن حجر المكي: الميسر: القمار بأي نوع كان، وقال المحلي: ‌صورة ‌القمار المحرم التردد بين أن يغنم وأن يغرم."

(االمادة:الميسر، ج:39، ص:404، ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية)

مسند أحمد میں ہے:

"عن عبد الرحمن بن عبد الله بن مسعود،، عن أبيه، قال: " نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صفقتين في صفقة واحدة."

(‌‌مسند عبد الله بن مسعود رضي الله تعالى عنه، ج:6، ص:324، رقم:3783  ط: موسسة الرسالة)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"بيع السمسرة: السمسرة: هي الوساطة بين البائع والمشتري لإجراء البيع. والسمسرة جائزة، والأجر الذي يأخذه السمسار حلال؛ لأنه أجر على عمل وجهد معقول ."

(القسم الثالث :العقود او التصرفات المدنیة المالیة ،الفصل الاول:عقد البیع،المبحث الثانی:شروط المبیع،ج:5،ص:3326،ط:دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"قال في التتارخانية: وفي ‌الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة."

كتاب الاجارة، باب الاجارة الفاسدة،مطلب في أجرة ‌الدلال، ج:6 ،ص:63، ط: سعيد)

وفیہ ایضاً:

"وفي الدرر: لا يستحق ‌الربح إلا بإحدى ثلاث: بمال، أو عمل، أو تقبل..قوله: أو تقبل) عبارة الدرر أو ضمان."

(کتاب الشركة، مطلب شركة الوجوه، ج:4 ص:324، ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144502101407

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں