بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رضاعی رشتے داروں کا حکم


سوال

رضاعی اولاد اور رضاعی بہن بھائیوں کے کیا حقوق ہیں؟ جو حقوق نسبی رشتوں کے ہیں وہی حقوق رضاعی رشتے کے ہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ رضاعت کی صورت میں ویسے ہی رشتے بنتے ہیں جیسے نسب سے بنتے ہیں، لہذا جس کا دودھ پیا ہو وہ عورت رضیع( دودھ پینے والے) کی ماں اور اس کا شوہر رضیع کا باپ اور اس کی اولاد رضیع کی بھائی بہن، رضاعی باپ کے بھائی بہن رضیع کے چچا، پھوپھیاں اور رضاعی ماں کے بھائی بہن رضیع کے ماموں اور خالہ بن جاتے ہیں، رضاعی بھائی بہنوں کی اولاد بھتیجے اور بھانجے بن جاتے ہیں۔الغرض  جس عورت کا دودھ پیا گیا ہے اس کی تمام اولاد ہی دودھ پینے والے کے بھائی بہن بن چکے  ہیں،      لہذا دینِ اسلام نے صلۂ رحمی اور رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کا درس دیا ہے اور اس سلسلے میں سگے اور سوتیلے کی کوئی تفریق نہیں کی، بلکہ کسی بھی نسبت سے بننے والے رشتوں کو نبھانے اور ان سے اخلاق سے پیش آنے کا حکم دیا ہے،حضور ﷺ  کی رضاعی بہن   حضرت شیماء بنت حارث (رضی اللہ عنہا)  کو  مسلمانوں نے  گرفتار کرتے وقت جنگی سختی سے کام لیا، اس وقت وہ بڑی عمر کی تھیں، انہوں نے لشکریوں سے کہا: " جانتے نہیں ہو، میں تمہارے صاحب کی رضاعی بہن ہوں، میرے ساتھ ادب سے بات کرو" ، لیکن سپاہیوں کو یقین نہ آیا، انہیں آں حضرت ﷺ  کی خدمت میں لے آئے، آپ ﷺ نے انہیں پہچان لیا اور دیکھ کر فرطِ محبت سے آپﷺ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے، اپنی چادر مبارک حضرت شیماء  کے بیٹھنے کے لیے بچھادی، محبت کی باتیں کیں اور فرمایا! " اے بہن تم میرے یہاں رہنا چاہو تو تمہارا گھر ہے اور اگر واپس جانا چاہو  تب بھی مجھے اصرار نہیں،   لہذا رضاعی  رشتے دار بھی اسی طرح ہیں جس طرح  نسبی رشتے دار ہیں  ان کے بھی وہ ہی حقوق ہیں  جس طرح نسبی رشتے داروں کے حقوق ہیں  ، البتہ یہ یاد رہے کہ میراث کا حق نسبی رشتہ میں ہوتا ہے، رضاعی رشتہ سے کوئی شخص میراث کا حق دار نہیں  ہو تا ہے ۔

قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْـًٔا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ ۙ وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ ؕ(النِّسَآء، 36)

الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ میں ہے:

"وقال ابن إسحاق، عن أبي وجزة السعدي: إن الشيماء لما انتهت إلى رسول اللَّه صلّى اللَّه عليه وسلّم قالت: يا رسول اللَّه، إني لأختك من الرضاعة. قال: «وما علامة ذلك؟» قالت: عضة عضضتها في ظهري، وأنا متورّكتك. فعرف رسول اللَّه صلّى اللَّه عليه وسلّم العلامة، فبسط لها رداءه، ثم قاللها: «هاهنا» . فأجلسها عليه وخيّرها، فقال: «إن أحببت فأقيمي عندي محبّبة مكرمة، وإن أحببت أن أمتّعك فارجعي إلى قومك» . فقالت: بل تمتّعني وتردّني إلى قومي. فمتعها وردّها إلى قومها، فزعم بنو سعد بن بكر أنه أعطاها غلاماً يقال له: مكحول وجارية، فزوّجت إحداهما الآخر، فلم يزل فيهم من نسلهم بقية. أخرجه المستغفريّ من طريق سلمة بن الفضل، عن ابن إسحاق هكذا. وقال ابن سعد: كانت الشيماء تحضن النبي صلّى اللَّه عليه وسلّم مع أمها وتوركه، وقال أبو عمر: أغارت خيل رسول اللَّه صلّى اللَّه عليه وسلّم على هوازن، فأخذوها فيما أخذوا من السبي، فقالت لهم: أنا أخت صاحبكم، فلما قدموا بها قالت: يا محمد. أنا أختك، وعرفته بعلامة عرفها، فرحّب بها وبسط رداءه، فأجلسها عليه ودمعت عيناه، فقال لها: «إن أحببت أن ترجعي إلى قومك أوصلتك، وإن أحببت فأقيمي مكرّمة محبّبة» ، فقالت: بل أرجع، فأسلمت وأعطاها رسول اللَّه صلّى اللَّه عليه وسلّم نعما وشاء وثلاثة أعبد وجارية".

(الشمياء بنت الحارث،205/8، دار الکتب العلمیۃ)

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے : 

"(فيحرم منه) أي بسببه (ما يحرم من النسب) ".

(كتاب النكاح ، باب الرضاع،3/ 213،سعيد)

تنویر الابصار مع الدر المختار  میں ہے :

"(ويستحق الإرث)۔۔۔۔(برحم ونكاح)۔۔ (وولاء)۔۔۔۔(فيبدأ بذوي الفروض)۔۔(ثم بالعصبات)۔۔۔ (النسبية) لأنها أقوى".

(کتاب الفرائض،764/763/6،سعید)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144501101984

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں