بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

روزے میں آنکھ کان میں دوا ڈالنے اور انجکشن لگوانے کا حکم


سوال

1- کیا روزے کی حالت میں آنکھ یا کان میں دوائی  ڈال سکتے ہیں؟

2-  اگر نس یا گوشت میں انجیکشن لگوانا پڑے تو کیا لگوا سکتے ہیں؟

جواب

1- روزہ کی حالت میں آنکھ میں قطرے ڈالنے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا، اگرچہ روزہ دار اس دوا یا قطروں کا ذائقہ حلق میں محسوس کرے۔کان میں دوا ڈالنے سے روزہ فاسد ہوجاتاہے، فقہاء کرام کی تصریحات کے مطابق کان میں ڈالی ہوئی دوا دماغ میں براہِ راست یا بابواسطہ معدہ میں پہنچ جاتی ہے، جس سے روزہ فاسد ہوجاتاہے۔

 

2- روزہ کی حالت میں نس یا گوشت میں انجکشن لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، اس لیے روزہ کی حالت میں انجکشن  لگانے میں کوئی قباحت نہیں۔ اسی طرح گلوکوز کا انجکشن لگانا روزہ کو فاسد نہیں کرتا، البتہ گلوکوز کا ا نجکشن بلاضرورت طاقت کے لیے  لگوانا مکروہ ہے۔ 

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

’’وإذا اکتحل أو أقطر بشیئ من الدواء فی عینیہ لایفسد الصوم عندنا‘‘. (فتاویٰ تاتارخانیة، ج:۲، ص:۳۶۶، ط: إدارة القرآن)
’’الفقہ الاسلامی وادلتہ ‘‘ میں ہے:
’’مالایفسد الصوم عند الحنفیة ... ۳-القطرة أو الاکتحال في العین ولو وجد الصائم الطعم أو الأثر في حلقه؛ لأن النبي صلی اللّٰه علیه وسلم اکتحل في رمضان و هو صائم‘‘.  (الفقه الإسلامي و أدلته، ج:۳، ص:۱۷۱۰، ط:دارالفکر)

 ’’بدائع الصنائع ‘‘ میں ہے:
’’وما وصل إلی الجوف أو إلی الدماغ عن المخارق الأصلیة کالأنف والأذن والدبر بأن استعط أو احتقن أو أقطر في أذنه فوصل إلی الجوف أو إلی الدماغ فسد صومه، أما إذا وصل إلی الجوف فلاشك فیه، لوجود الأکل من حیث الصورة، وکذا إذا وصل إلی الدماغ؛ لأنه له منفذ إلی الجوف، فکان بمنزلة زاویة من زوایا الجوف‘‘. (بدائع الصنائع، ج:۲، ص:۹۳، ط:دارالکتب العلمیة)

’’المحیط البرہانی ‘‘ میں ہے:
’’وإذا استعط أو أقطر في أذنه إن کان شیئًا یتعلق به صلاح البدن نحو الدهن والدواء یفسد صومه من غیر کفارة، وإن کان شیئًا لایتعلق به صلاح البدن کالماء قال مشایخنا: ینبغي أن لایفسد صومه إلا أنّ محمدًا رحمه اللّٰه تعالٰی لم یفصل بینما یتعلق به صلاح البدن وبینما لایتعلق‘‘. (المحیط البرهاني، ج:۲، ص:۳۸۳، ط:دارالکتب العلمیة)

’’فتاویٰ شامی‘‘ میں ہے:
’’لأنه أثر داخل من المسام الذي هو خلل البدن، والمفطر إنما هو الداخل من المنافذ للاتفاق علی أن من اغتسل في ماء فوجد برده في باطنه أنہ لایفطر‘‘. (فتاویٰ شامی، ج:۲، ص: ۳۹۵، ط:سعید)
وفیه أیضاً:
’’وإنما کره الإمام الدخول في الماء والتلفف بالثوب المبلول لما فیه من إظهار الضجر في إقامة العبادة؛ لا لأنه مفطر‘‘. (فتاویٰ شامی ،ج:۲،ص:۳۹۶، ط:سعید) فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144109202478

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں