بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

روزہ کی حالت میں عورت سے گلے ملنے اور باتیں کرنے کا حکم


سوال

کیا عورت سے باتیں کرنے یا گلے ملنے سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے یا نہیں اور قطرے آنے سے غسل فرض ہوتا ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں (1)عورت کےساتھ باتیں کرنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا اورعورت کو گلے لگانے سے اگر انزال ہوا ہو تو روزہ ٹوٹ جائے گا اور  قضا  لازم ہوگی اوراگر انزال نہیں ہوا ہو تو روزہ نہیں ٹوٹے گا۔

(2) اگروہ قطرے گلے ملنے کے دوران آئے ہوں اگر وہ مذی یا ودی   کےہوں  تو اس کے آنے سے غسل لازم نہیں ہوتا البتہ وضو  ٹوٹ جاتا ہےاور  اگر وہ قطرے منی کے ہوں  تو غسل  کرنا واجب ہوگا۔

ملحوظ رہے کہ عورت سے باتیں کرنے یا گلے ملنے سے مراد اگر نامحرم سے بات چیت وغیرہ ہے، تو یہ رمضان و غیر رمضان ہر حال میں گناہ ہے، رمضان میں گناہ کی شدت بڑھ جائے گی، لہٰذا اس سے اجتناب کیا جائے، اس سے روزے کا ثواب بھی کم ہوجائے گا۔ اور اگر اپنی بیوی سے گلے ملنا مراد ہے تو اگر  بوس و کنار کی وجہ سے انزال  ہونے یا جماع میں واقع ہونے کا اندیشہ  نہ ہو  تو یہ جائز ہوگا، لیکن انزال کا اندیشہ ہو  یا جماع میں واقع ہونے کا خوف ہو تو  روزے کی حالت میں اس سے بھی اجتناب کرے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وهي ثلاثة الجنابة وهي تثبت بسببين أحدهما خروج المني على وجه الدفق والشهوة من غير إيلاج باللمس أو النظر أو الاحتلام أو الاستمناء۔۔۔۔۔۔رجل بال فخرج من ذكره مني إن كان ‌منتشرا عليه الغسل وإن كان منكسرا عليه الوضوء. كذا في الخلاصة."

(کتاب الطھارۃ، الباب الثانی فی الغسل، الفصل الثالث المعانی الموجبۃ للغسل، ج:1، ص:14، ط:دار الفکر بیروت)

و فیہ ایضاً:

"وإذا قبل امرأته، وأنزل فسد صومه من غير كفارة كذا في المحيط. وكذا في تقبيل الأمة والغلام وتقبيلها زوجها إذا رأت بللا، وإن وجدت لذة، ولم تر بللا فسد عند أبي يوسف - رحمه الله تعالى - خلافا لمحمد - رحمه الله تعالى - كذا في الزاهدي.والمس والمباشرة والمصافحة والمعانقة كالقبلة، كذا في البحر الرائق."

(کتاب الصوم، الباب الرابع فیمایفسد و مالا یفسد، النوع الاول ما یوجب القضاء و الکفارۃ، ج:1،  ص:204، ط:دار الفکر بیروت)

البحر الرائق میں ہے:

"أطلق في النظر فشمل ما إذا نظر إلى وجهها أو فرجها كرر النظر أو لا وقيد به؛ لأنه لو قبلها بشهوة فأنزل فسد صومه لوجود معنى الجماع بخلاف ما إذا لم ينزل حيث لا يفسد لعدم المنافي صورة ومعنى، وهو محمل قوله أو قبل بخلاف الرجعة والمصاهرة؛ لأن الحكم هناك أدبر على السبب على ما يأتي إن شاء الله - تعالى -واللمس والمباشرة والمصافحة والمعانقة كالقبلة، ولا كفارة عليه."

(کتاب الصوم، باب مایفسد الصوم و مالایفسدہ، ج:2، ص:293،ط: دار الکتاب الإسلامی)

بدائع الصائع میں ہے:

"ولو جامع امرأته فيما دون الفرج فأنزل أو باشرها أو قبلها أو لمسها بشهوة فأنزل يفسد صومه، وعليه القضاء ولا كفارة عليه."

(کتاب الصوم، فصل ارکان الصوم، ج:2، ص: 93، ط:دار الکتب العلمیۃ بیروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: لا عند مذي) أي لا يفرض الغسل عند خروج مذي كظبي بمعجمة ساكنة وياء مخففة على الأفصح، وفيه الكسر مع التخفيف والتشديد، وقيل هما لحن ماء رقيق أبيض يخرج عند الشهوة لا بها، وهو في النساء أغلب، قيل هو منهن يسمى القذى بمفتوحتين نهر.(قوله: أو ودي) بمهملة ساكنة وياء مخففة عند الجمهور، وحكى الجوهري كسر الدال مع تشديد الياء. قال ابن مكي: ليس بصواب. وقال أبو عبيد إنه الصواب وإعجام الدال شاذ: ماء ثخين أبيض كدر يخرج عقب البول نهر.(قوله: بل الوضوء منه إلخ) أي بل يجب الوضوء منه أي من الودي ومن البول جميعا."

(کتاب الطھارۃ، سنن الغسل، ج:1، ص:165، ط:ایچ ایم سعید کمپنی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100977

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں