بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رقیہ پڑھنے کا حکم


سوال

رقیہ میں کیا کیا پڑھتے ہیں؟ شرعی طریقہ کیا ہے اس کا؟

جواب

"رقیہ"  عربی زبان میں جھاڑ پھونک اور دم کرنے کو کہتے ہیں،  اللہ تعالی کے نام اور  ادعیہ ماثورہ جن کا کسی مرض کے علاج کے لیے پڑھنا مفید ہو،  پڑھ کر  خود مریض اپنے اوپر دم   کرے یا کوئی  دوسرا شخص کسی مریض  پر دم کرے تو شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔البتہ رقیہ یا تعویذات کے لیے مندرجہ ذیل کا  شرائط لحاظ رکھنا ضروری ہے:

  تعویذات  کے ذریعے علاج کرنا  چند شرائط کے ساتھ جائز ہے :

(۱)  ان کا معنی  ومفہوم معلوم ہو۔

(۲) ان میں  کوئی شرکیہ کلمہ نہ ہو۔

(۳)  ان کے مؤثر بالذات ہونے   کا اعتقاد نہ ہو ۔

  (۴)  اگر کسی اور سے  عملیات کر وانے  ہیں تو  وہ شخص خود  علاج سے واقف اور  ماہر ہو، فریب نہ کرتا ہو۔

 لہذا    ایسے تعویذ اور عملیات جو آیات  قرآنیہ ، ادعیہ ماثورہ یا کلمات صحیحہ پر مشتمل ہوں  ان سے علاج کرنا شرعاً درست ہے؛ کیوں کہ اس کی حقیقت ایک جائز تدبیر سے زیادہ کچھ نہیں ، اور جن تعویذوں میں کلماتِ  شرکیہ یا  کلماتِ مجہولہ یا نامعلوم قسم کے منتر  لکھے جائیں یا ا نہیں مؤثر حقیقی  سمجھا جائے تو ان کا استعمال  شرعاً جائز نہیں ہے۔

حضرت عبد اللہ  بن عمرو رضی  اللہ  عنہما  سے منقول ہے کہ وہ:

  "اللہ  تعالی کی قدرت وکبریائی پر مشتمل کلماتِ تعوذ اپنے سمجھ دار بچوں کو یاد کراتے تھےاور جو بچہ سمجھ دار نہ ہوتا تھا اُس کے گلے میں وہ کلمات لکھ کرتعویذ کی شکل میں ڈال دیتے تھے۔"

باقی حدیث میں جن تعویذ کے استعمال کرنے کی ممانعت آئی ہے اس سے مراد وہ تعویذ ہیں جن میں شرکیہ الفاظ استعمال کیے جاتے ہوں یا  اس کے مؤثر بالذات ہونے کا عقیدہ رکھاجاتا ہو یا کلماتِ مجہولہ یا نامعلوم منتر اس میں ہوں۔

صحیح مسلم میں ہے:

" عن عوف بن مالك الأشجعي، قال: كنا نرقي في الجاهلية، فقلنا: يا رسول الله! كيف ترى في ذلك؟ فقال: «اعرضوا علي رقاكم، لا بأس بالرقى مالم يكن فيه شرك»".

(4/ 1727، رقم الحدیث: 2200، باب لا باس بالرقی مالم یکن فیه شرک، ط:دار إحیاء التراث العربی)

سنن الترمذی میں ہے:

"عن أبي سعيد الخدري قال: بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في سرية فنزلنا بقوم، فسألناهم القرى فلم يقرونا، فلدغ سيدهم، فأتونا فقالوا: هل فيكم من يرقي من العقرب؟ قلت: نعم أنا، ولكن لا أرقيه حتى تعطونا غنماً، قالوا: فإنا نعطيكم ثلاثين شاةً، فقبلنا فقرأت عليه: الحمد لله سبع مرات، فبرأ وقبضنا الغنم، قال: فعرض في أنفسنا منها شيء، فقلنا: لا تعجلوا حتى تأتوا رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فلما قدمنا عليه ذكرت له الذي صنعت، قال: «وما علمت أنها رقية؟ اقبضوا الغنم واضربوا لي معكم بسهم» : هذا حديث حسن صحيح".

( 2/26 باب ما جاء  فی أخذ الأجر علی التعویذ، ط: قدیمی)

وفیہ أیضاً:

"عن ابن عباس قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعوذ الحسن والحسين يقول: «أعيذكما بكلمات الله التامة من كل شيطان وهامة، ومن كل عين لامة» ، ويقول: «هكذا كان إبراهيم يعوذ إسحاق وإسماعيل». حدثنا الحسن بن علي الخلال قال: حدثنا يزيد بن هارون، وعبد الرزاق، عن سفيان، عن منصور، نحوه بمعناه،: هذا حديث حسن صحيح".

 (2/26 باب ما جاء  فی الرقیة من العین، ط: قدیمی)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"وأما ما كان من الآيات القرآنية، والأسماء والصفات الربانية، والدعوات المأثورة النبوية، فلا بأس، بل يستحب سواء كان تعويذاً أو رقيةً أو نشرةً، وأما على لغة العبرانية ونحوها، فيمتنع؛ لاحتمال الشرك فيها".

(7 / 2880، رقم الحدیث:4553، الفصل الثانی، کتاب الطب والرقی، ط: دارالفکر بیروت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144406100950

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں