بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

روپے قرض دے کر ڈالر ریٹ میں واپس لینا طے ہوا تو ایسے قرض کی واپسی کا حکم


سوال

بھائی نے دوسرے بھائی سے ادھار پیسے  لیے اس طور پر کہ بھائی نے کہا کہ یہ پندرہ لاکھ میں دے رہا ہوں ڈالر کے ریٹ پر اور جب میں واپس لوں گا تو ڈالر کے ریٹ پر۔ ہاتھ میں جب پیسے دیے تو پندرہ لاکھ روپے تھے اور اب وہ  پیسے  اٹھارہ  لاکھ سے بھی زیادہ بن رہے ہیں، تو اس کی  کیا شرعی حیثیت ہے؟  اور  یہ بھی ضرور بتائیے گا زائد پیسے لینا کس ضمن میں آئے گا؟

جواب

واضح ہو کہ قرض کا حکم یہ ہے کہ جس کرنسی میں دیا جائے، مقروض اسی کرنسی کے حساب سے اسے لوٹانے کا پابند ہوتا ہے لہذا صورت مسئولہ میں جب ایک بھائی نے دوسرے کو  15 لاکھ روپے قرض دیے، ڈالر کی صورت میں قرض نہیں دیاتھا،  تو دوسرے بھائی کے ذمہ 15 لاکھ روپے ہی لوٹانا لازم ہے۔ باقی یہ شرط کہ واپسی ڈالر کے ریٹ پر ہوگی، یہ شرط لگانا جائز نہیں تھا اور اس شرط کا اعتبار نہیں ہے۔قرض میں دی گئی مذکورہ رقم سے زائد اگر رقم وصول کرے گا تو وہ زائد سود کہلائے  گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(لايبطل بالشرط الفاسد) لعدم المعاوضة المالية سبعة وعشرون ما عده المصنف تبعا للعيني وزدت ثمانية (القرض والهبة والصدقة والنكاح."

(كتاب البيوع، باب المتفرقات من أبوابها، ج5، ص249، سعيد)

"تنقیح الفتاوی الحامدیة"میں  ہے:

"الدیون تقضیٰ بأمثالها".

(کتاب البیوع، باب القرض، ج؛1 ؍ 500 ، ط:قدیمی)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"و في الأشباه: کل قرض جر نفعاً حرام".

(کتاب البیوع، فصل فی القرض، ج:5 ؍ 144 ، ط:سعید )

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407100916

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں