بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رکوع اور سجدے کی تسبیح کی حکمت


سوال

رکوع میں سبحان ربی العظیم اور سجدہ میںسبحان ربی الاعلی کیوں ہے ؟

جواب

  اللہ جل شانہ نے رسول اللہ ﷺ کو جس طریقے کے مطابق نماز کا حکم دیا  ، رسول اللہ ﷺ نے امت کو اسی کے مطابق نماز سکھاکر فرمادیا کہ اُس طرح نماز ادا کرو جیسے مجھے نماز ادا کرتے دیکھا ہے، اس لیے مؤمن کی شان تو یہی ہے کہ وہ دین کے اَحکام کو حکمِ خداوندی سمجھ کر تسلیم کرلے، خواہ اس کی حکمت و مصلحت اور علت سمجھ میں آئے یا نہیں، بے شک شریعت کے اَحکام مختلف حکمتوں اور مصالح پر مبنی ہوتے ہیں،بعض اوقات کچھ مصالح حکم کے ساتھ بیان بھی ہوجاتے ہیں اور بعض اوقات فقہائے کرام، علماء اور صوفیائے امت کچھ احکامات کی مصالح  اپنے اپنے ذوق کے مطابق  بیان بھی کردیتےہیں،لیکن شریعت کے احکام پر عمل کرنا حکمتوں یا مصلحتوں کے جاننے پر موقوف نہیں ہے، لہذا احکام پر عمل انہیں اللہ اور اس کے رسول کا حکم سمجھ کر کرنا چاہیے ، حکمتوں اور مصلحتوں کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے۔

  رکوع اور سجدے  کی تسبیحات    سے متعلق ایک  حدیث شریف میں یہ   وضاحت ہےکہ جب قرآن کی آیت مبارکہ   {فسبح باسم ربك العظيم}نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس کو اپنے رکوع میں شامل کرلواور جب {سبح اسم ربك الأعلى}نازل ہوئی تو فرمایا اس کو اپنے سجدے میں شامل کرلو  ۔

بعض اہل علم نے اس کی یہ وجہ بیان فرمائی ہے کہ چوں کہ چوں کہ سجدے میں بندہ اپنے رب کے سامنے  انتہائی تواضع ،عاجزی اور پستی کے مقام پر ہوتا ہے'اس لئے اس میں   رب کی صفت بھی " اعلی" مقرر کی گئی کہ رب انتہائی  اعلی اور برتر ہے۔

"وعن عقبة بن عامر، قال: ((لما نزلت {فسبح باسم ربك العظيم} قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: اجعلوها في ركوعكم. فلما نزلت {سبح اسم ربك الأعلى} قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: اجعلوها في سجودكم)) رواه أبوداود وابن ماجه والدارمي

ــ(اجعلوها) أي مضمونها ومحصولها. (في ركوعكم) يعني قولوا: سبحان ربي العظيم. (اجعلوها في سجودكم) أي قولوا: سبحان ربي الأعلى، كما يدل عليه حديث ابن مسعود، وحديث حذيفة بعد هذا، ففيهما بيان كيفية هذا الجعل. والحكمة في تخصيص الركوع بالعظيم، والسجود بالأعلى، أن السجود ‌لما ‌كان ‌فيه ‌غاية ‌التواضع ‌لما ‌فيه ‌من ‌وضع ‌الجبهة التي هي أشرف الأعضاء على مواطئ الأقدام، كان أفضل وأبلغ في التواضع من الركوع، فحسن تخصيصه بما فيه صيغة أفعل التفضيل وهو الأعلى، بخلاف التعظيم، جعلا للأبلغ مع الأبلغ، والمطلق مع المطلق، وأيضا قد صح: "أقرب ما يكون العبد من ربه وهو ساجد"، فربما يتوهم قرب المسافة فندب "سجان ربي الأعلى" دفعا لذلك التوهم، وأيضا في السجود غاية انحطاط من العبد فيناسبه أن يصف فيه ربه بالعلو."

(مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (کتاب الصلوۃ،الفصل الثانی،باب الرکوع،(3/ 195)،ط:إدارة البحوث العلمية والدعوة والإفتاء الهند)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100266

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں