بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

منگنی کے بعد منگیتر کو دیکھنا اور اس کے ساتھ باتیں کرنے کا حکم


سوال

 منگنی کے بعد لڑکا اپنی  منگیتر سے فون پر بات کرسکتا ہے اور اسے دیکھ سکتا ہےیانہیں ؟ ہمارے ہاں منگنی پر لوگوں کو بلایاجاتاہے اور اس مجلس میں لوگوں کے سامنے ایک خطبہ پڑھاجاتاہے اور اس مجمع میں لڑکے کا وکیل ایجاب قبول کرتاہے، تو کیا اس خطبہ نکاح کے بعد لڑکا اپنی  منگیتر سے تعلق رکھ سکتا ہے کہ نہیں؟ حالانکہ ہمارے ہاں منگنی کے بعدلڑکا اور لڑکی کی آپس میں ایک دوسرے سے بات کرنا اور اس کو دیکھنا برا سمجھاجاتاہے۔

جواب

واضح رہے کہ منگنی اورنکاح دونوں کا حکم الگ الگ ہے،منگنی  نکاح کا وعدہ ہے، نکاح نہیں ہے، منگنی کرنے  کے بعد  منگیتر  بھی دیگر اجنبی لڑکیوں کی طرح نامحرم ہی ہوتی ہے، اور نامحرم لڑکی سے  تعلقات رکھنا، ملنا جلنا، اور ہنسی  مذاق   یا بغیر ضرورت بات چیت  کرنا جائز نہیں ہے، اورفون کال یا میسج پر تعلقات رکھنے کا بھی یہی حکم ہے،اگر منگنی کے موقع پر خطبہ پڑھاجائےاورایجاب وقبول بھی محض منگنی کےلیےہواورباقاعدہ نکاح بعد میں رخصتی کےوقت ہوتاہو،تواس صورت میں منگنی کاایجاب وقبول محض منگنی کہلائےگا،اوراگرمعاملہ کچھ اورہوتووضاحت کرکےدوبارہ معلوم کیاجاسکتاہے۔

صورت مسئولہ میں جو کیفیت بیان کی گئی ہےوہ منگنی کی صورت ہے،منگنی کےموقع پر اس کی پختگی کےلیےخطبہ اورایجاب وقبول ہوتا ہےاور بعد میں مستقل طور پرمجلسِ نکاح منعقد کی جاتی ہے،لہذااس کےبعد لڑکالڑکی کا آپس میں تعلق رکھنا،فون پربات کرنایا ایک دوسرے کو دیکھنا جائز نہیں ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"لو قال هل أعطيتنيها فقال أعطيت إن كان المجلس للوعد فوعد، وإن كان للعقد فنكاح."

(کتاب النکاح ،11/3،ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"وینعقد بإیجاب وقبول ( قوله وینعقد)........والحاصل أن النکاح والبیع ونحوهما وإن کانت توجد حسا بالإیجاب والقبول، لکن وصفها بکونها عقوداً مخصوصة بأرکان وشرائط یترتب علیها أحکام وتنتفی تلك العقود بانتفائها وجود شرعي زائد علي الحسي ."

(کتاب النکاح،3/9،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"ولا يكلم الأجنبية إلا عجوزاً عطست أو سلّمت فيشمتها و يرد السلام عليها، وإلا لا۔ انتهى۔

(قوله: وإلا لا) أي وإلا تكن عجوزاً بل شابةً لا يشمّتها، ولا يرد السلام بلسانه۔ قال في الخانية: وكذا الرجل مع المرأة إذا التقيا يسلّم الرجل أولاً، وإذا سلّمت المرأة الأجنبية على رجل إن كانت عجوزاً رد الرجل عليها السلام بلسانه بصوت تسمع، وإن كانت شابةً رد عليها في نفسه، وكذا الرجل إذا سلّم على امرأة أجنبية، فالجواب فيه على العكس."

(کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی النظر واللمس،369/6،ط:سعید)

کفایت المفتی میں ہے:

"منگنی کی جو مجلسیں منعقد کی جاتی ہیں وہ صرف رشتہ اور ناطہ مقرر کرنے کے لیے کی جاتی ہیں ، اس میں جو الفاظ استعمال کیے جاتےہیں وہ وعدہ کی حد تک رہتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ منگنی کی مجلس کے بعد فریقین بھی اس کو نکاح قرار نہیں دیتے ، بلکہ اس کے بعد نکاح کی مجلس منعقد کی جاتی ہے، اور نکاح پڑھایاجاتاہے۔۔۔البتہ اگر منگنی کی مجلس میں صریح لفظِ نکاح استعمال کیاجائے، مثلاً:زوج یا اس کا ولی یوں کہے کہ اپنی لڑکی کا نکاح میرے ساتھ کردو، ولیِ زوجہ کہے کہ میں نے اپنی لڑکی کا تیرے ساتھ کردیا،تو نکاح ہوجائے گا، لأن الصريح يفوق الدلالة"۔۔۔ملخصاّ

(كتاب النكاح ، ج:6،ص:483/ 484،ط:ادارۃ الفاروق کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407100622

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں