بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

رکوع کرتے ہوئے گھٹنوں کو پکڑنے کا ثبوت اور اس کا طریقہ


سوال

کیا رکوع میں پانچوں انگلیوں سے گھٹنے کو پکڑنا ہوگا؟ اور اگر ہے تو کیسے پکڑیں؟

جواب

رکوع کا حکم اللہ تعالی نے قرآن مجید  میں فرمایا ہے ، اور رکوع اس قدر جھکنے کو کہتے ہیں کہ ہاتھ گھٹنوں تک پہنچ سکیں اور ایسا لگے گویا کہ اپنے گھٹنوں کو پکڑے ہوئے ہیں،لہذا رکوع میں مرد کا گھٹنوں کوہاتھ سے پکڑنا اور  انگلیاں خوب کھلی رکھنا سنت ہے، رکوع میں ٹانگیں سیدھی رکھنی چاہیے، بعض لوگ ٹانگوں میں خم دے کر کمان کی طرح ٹیڑھی کرلیتے ہیں، یہ مکروہ ہے۔

عورت رکوع میں تھوڑی  سی  جھکے گی ،ہاتھ  گھٹنوں پر رکھیں گی، انگلیوں کو عادی حالت پر چھوڑے گی اور گھٹنوں کو بھی تھوڑا جھکائے گی۔

سنن الترمذی میں ہے:

"عن أبي عبد الرحمن السلمي، قال: قال لنا عمر بن الخطاب: «إن الركب سنت لكم، فخذوا بالركب."

ترجمہ:ابو عبدالرحمن سلمی کہتے ہیں کہ ہم سے عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا:گھٹنوں کو پکڑنا تمہارے لیے مسنون کیا گیاہے ،لہذا تم (رکوع میں )گٹھنے پکڑے رکھو۔

(ابواب الصلاۃ ،باب ماجآء فی وضع الیدین علی الرکبتین فی الرکوع،ج:2،ص:43،رقم الحدیث :258،ط:شرکۃ مکتبۃ ومطبعۃ مصطفی البابی الحلبی)

تحفۃ الاحوذی میں ہے:

"وروى البيهقي هذا الحديث بلفظ كنا إذا ركعنا جعلنا أيدينا بين أفخاذنا فقال عمر إن من السنة الأخذ بالركب قال الحافظ في فتح الباري بعد ذكر هذه الرواية هذا حكمه حكم الرفع لأن الصحابي إذا قال السنة كذا أو سن كذا كان الظاهر انصراف ذلك إلى سنة النبي صلى الله عليه وسلم ولا سيما إذا قاله مثل عمر رضي الله عنه انتهى."

(ابواب الصلاۃ،باب ماجآء فی وضع الیدین علی الرکبتین فی الرکوع ،ج:2،ص:101،ط:داراالکتب العلمیۃ)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"كذا في النهاية ويعتمد بيديه على ركبتيه. كذا في الهداية وهو الصحيح. هكذا في البدائع ويفرج بين أصابعه ولا يندب إلى التفريج إلا في هذه الحالة ولا إلى الضم إلا في حالة السجود وفيما وراء ذلك يترك على العادة. كذا في الهداية ويبسط ظهره حتى لو وضع على ظهره قدح من ماء لاستقر ولا ينكس رأسه ولا يرفع يعني يسوي رأسه بعجزه. كذا في الخلاصة ويكره أن يحني ركبتيه شبه القوس والمرأة تنحني في الركوع يسيرا ولا تعتمد ولا تفرج أصابعها ولكن تضم يديها وتضع على ركبتيها وضعا وتحني ركبتيها ولا تجافي عضديها."

(کتاب الصلاۃ ،الباب الرابع ،الفصل الثالث ،ج:1،ص:74،ط:المطبعۃ الکبری الامیریۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508101171

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں