بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رکوع میں سجدہ تلاوت کی نیت کرنا


سوال

 اگر دورانِ تراویح، آیتِ سجدہ کی تلاوت کرکے، بجائے سجدہ کرنے کے، اس کے اختتام پر رکوع کیا جائے، تو سجدہ تلاوت کا وجوب ادا ہو جائے گا؟

جواب

 نماز میں آیتِ سجدہ تلاوت کرنے کے بعد اگر کسی شخص نے تین آیات سے پہلے رکوع کرلیا اور رکوع میں سجدہ تلاوت کی نیت کرلی تو  سجدہ تلاوت ادا ہوجائے گا، اور اگر یہ شخص امام ہو اور وہ رکوع میں سجدہ تلاوت کی نیت کرے تو مقتدیوں کو بھی رکوع میں سجدہ تلاوت کرنے کی نیت کرنی ہوگی،  ورنہ مقتدیوں کا سجدہ  تلاوت ادا نہیں ہوگا۔  اور اگر آیت سجدہ تلاوت کرنے کے بعد آگے تین آیات پڑھنے سے پہلے رکوع کیا اور اس میں سجدہ تلاوت کی نیت نہیں کی تو اس رکعت کے نماز والے سجدے میں ہی سجدہ تلاوت ادا ہوجائے گا، لہٰذا اگر امام سے آیتِ سجدہ پر سجدہ تلاوت رہ جائے تو اسے چاہیے کہ تین آیات پڑھنے سے پہلے رکوع کرلے اور اس میں سجدہ تلاوت کی نیت نہ کرے،  اس کے بعد نماز  کے سجدہ سے امام اور مقتدی دونوں کا سجدہ تلاوت ادا ہوجائے گا۔

لیکن آیتِ سجدہ تلاوت کرنے کے بعد آگے مزید تین آیات تلاوت کرنے بعد رکوع کیا تو اس میں نیت سے بھی سجدہ تلاوت ادا نہیں ہوگا اور نہ ہی نماز کے سجدہ سے ادا ہوگا۔ ایسی صورت میں نماز کے اندر مستقل طور پر سجدہ تلاوت کرلینا چاہیے، اور تاخیر سے سجدہ تلاوت ادا کرنے کی وجہ سے سجدہ سہو بھی کرنا ہوگا۔اور نماز میں بالکل ادا نہ کیا تو نماز سے باہر  یہ سجدہ تلاوت قضا نہیں کیا جاسکتا، اس لیے واجب چھوڑنے پر توبہ کرنا لازم ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 109، 110،):

"(وهي على التراخي) على المختار ويكره تأخيرها تنزيهاً، ويكفيه أن يسجد عدد ما عليه بلا تعيين ويكون مؤدياً وتسقط بالحيض والردة (إن لم تكن صلويةً) فعلى الفور؛ لصيرورتها جزءاً منها، ويأثم بتأخيرها ويقضيها ما دام في حرمة الصلاة ولو بعد السلام، فتح ... (ولو تلاها في الصلاة سجدها فيها لا خارجها) لما مر. وفي البدائع: وإذا لم يسجد أثم فتلزمه التوبة ... (وتؤدى بركوع وسجود) غير ركوع الصلاة وسجودها (في الصلاة وكذا في خارجها ينوب عنها الركوع) في ظاهر المروي بزازية (لها) أي للتلاوة (و) تؤدى (بركوع صلاة) إذا كان الركوع (على الفور من قراءة آية) أو آيتين وكذا الثلاث على الظاهر كما في البحر (إن نواه) أي كون الركوع (لسجود) التلاوة على الراجح (و) تؤدى (بسجودها كذلك) أي على الفور (وإن لم ينو) بالإجماع، ولو نواها في ركوعه ولم ينوها المؤتم لم تجزه ويسجد إذا سلم الإمام ويعيد القعدة، (قوله: على الفور إلخ) فلو انقطع الفور لا بد لها من سجود خاص بها ما دام في حرمة الصلاة، وعلله في البدائع بأنها صارت ديناً والدين يقضى بما له لا بما عليه والركوع والسجود عليه فلايتأدى به الدين. اهـ. (قوله: على الظاهر كما في البحر) أي عن البدائع والمتبادر من عبارته أنه استظهار من صاحب البدائع، لا أنه ظاهر الرواية، وفي الإمداد: الاحتياط قول شيخ الإسلام خواهر زاده بانقطاع الفور بالثلاث. وقال شمس الأئمة الحلواني: لاينقطع ما لم يقرأ أكثر من ثلاث، وقال الكمال بن الهمام: قول الحلواني هو الرواية. اهـ". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109201776

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں