بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رکوع کے بعد ہاتھوں کو کھلا چھوڑنے کا حکم


سوال

میں نے بعض لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ نماز میں رکوع کے بعد ہاتھوں کو کھلا چھوڑنے کے بجائے ان کو باندھ لیتے ہیں، کیا ان کا یہ عمل سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ؟عرب ممالک میں تو اکثر لوگ اسی طرح کرتے ہیں ۔

جواب

نماز کے دوران ہاتھ باندھنے سے متعلق احادیث مبارکہ میں غور کرنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ نماز کےدوران ہاتھ باندھنا rsquorsquoایسے قیامlsquolsquo کے ساتھ خاص ہےجوقراروالا مستقل ہو، جیسے ثناء، فاتحہ اور سورت کے لیے قیام ہےیا نماز جنازہ کے لیے قیام ہے۔ جبکہ رکوع کے بعد والا قیام مستقل اور قرار والا قیام شمار نہیں ہوتا۔ اس لیے اسے قیام کے بجائے rsquorsquo قومہlsquolsquo کہا جاتا ہے۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اس rsquorsquo قومہlsquolsquo میں مختلف اذکار اور تسبیحات واضح طور منقول ہیں، جبکہ ہاتھ باندھنے کی صراحت کسی بھی مشہور و متداول کتاب حدیث میں موجود نہیں ہے۔ حالانکہ اس موقع کے اذکار اور تسبیحات آہستہ سے پڑھی جاتی ہیں جبکہ ہاتھ باندھنا ظاہری عمل ہے،اس کے باوجود اس کی صراحت منقول نہ ہونے کا اس کے سوا کوئی مطلب نہیں ہو سکتا کہ رکوع کے بعد ہاتھ باندھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت نہیں ہے ۔ اسی بناء پر فقہائے امت فرماتے ہیں کہ رکوع بعد کھڑے ہونے کی حالت میں ہاتھ باندھنا سنت نہیں ہے بلکہ ہاتھوں کو کھلا چھوڑنے میں سنت نبوی کی رعایت ہے کیونکہ نماز کےدوران جو اعتدال مطلوب ہے یہاں اس کی رعایت اسی میں ہے کہ ہاتھوں کو کھلا چھوڑا جائے ۔ ردالمختار، بدائع، المغنی، المجموع، مصنف عبدالرزاق،وغیرہ


فتوی نمبر : 143101200039

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں