بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

رخصتی سے پہلے ولیمہ/ ولیمہ کی دعوت لڑکے والوں اور لڑکی والوں کا مشترکہ طورپر کرنا


سوال

 ایک شخص کا نکاح مسجد میں ہوا ،لڑکی اپنے والدین کے گھر رہی، اگلے دن رخصتی کے بغیر لڑکے والوں نے اور لڑکی والوں نے مشترکہ طور پر دعوت ولیمہ کا اہتمام کیا(یاد رہے لڑکی اور لڑکے کے درمیان ازدواجی تعلقات قائم نہیں ہوے یعنی ہمبستری وغیرہ) تو کیا ولیمہ کرنا درست ہے؟

جواب

ولیمہ کا افضل اور مسنون وقت جمہور علماء کے نزدیک رخصتی کے بعد ہے،تاہم اگر عقدِنکاح کے بعد رخصتی سے قبل ولیمہ کی دعوت کی گئی تب بھی  ولیمہ کی سنت ادا ہوگئی۔

نیز یہ بات بھی واضح رہے کہ ولیمہ اس کھانے کو کہا جاتا ہے جو رخصتی کے بعد لڑکے کی طرف سے کیا جائے ، شادی کے موقع پر لڑکی والوں پرکھانا کھلانے کا انتظام کرنا نہ لازم ہے اور نہ ہی سنت ، تاہم اگر باہمی رضامندی سے لڑکی والے اور لڑکے والے دونوں مشترکہ طور پر ولیمہ کی تقریب کے اخراجات برداشت کریں اور دونوں اس تقریب میں اپنے مہمانوں کو مدعو کر لیں تو شرعاً اس میں بھی  کوئی قباحت نہیں ہے۔

اگر رخصتی سے قبل کوئی دعوت نہ ہو اور  ولیمہ کی مشترکہ اخراجات والی یہ تقریب رخصتی کے بعد رکھ لی جائے  تو یہ صورت زیادہ بہتر ہے  کہ اس میں ولیمہ کے افضل اور مسنون وقت کی رعایت ہے۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"ووليمة العرس سنة، وفيها مثوبة عظيمة وهي إذا بنى الرجل بامرأته ينبغي أن يدعو الجيران والأقرباء والأصدقاء ويذبح لهم ويصنع لهم طعاما".

(كتاب الكراهية، الباب الثاني عشر في الهدايا والضيافات، 5/ 343، ط: رشيدية)

فتح الباری میں ہے:

"وقد اختلف السلف في وقتها هل هو عند العقد أو عقبه أو عند الدخول أو عقبه أو موسع من ابتداء العقد إلى انتهاء الدخول على أقوال قال النووي اختلفوا فحكى عياض أن الأصح عند المالكية استحبابه بعد الدخول وعن جماعة منهم أنه عند العقد وعند بن حبيب عند العقد وبعد الدخول وقال في موضع آخر يجوز قبل الدخول وبعده وذكر بن السبكي أن أباه قال لم أر في كلام الأصحاب تعين وقتها ... والزفاف قبل وبعد قريبا منه أن وقتها موسع من حين العقد قال والمنقول من فعل النبي صلى الله عليه وسلم أنها بعد الدخول كأنه يشير إلى قصة زينب بنت جحش وقد ترجم عليه البيهقي في وقت الوليمة اه وما نفاه من تصريح الأصحاب متعقب بأن الماوردي صرح بأنها عند الدخول وحديث أنس في هذا الباب صريح في أنها بعد الدخول لقوله فيه أصبح عروسا بزينب فدعا القوم واستحب بعض المالكية أن تكون عند البناء ويقع الدخول عقبها وعليه عمل الناس اليوم".

(كتاب النكاح، قوله باب الوليمة حق، 9/ 231-230، ط:دار المعرفة)

(كذا في عمدة القاري، كتاب النكاح، باب الصفرة للمتزوج،20/ 144 ط: دار إحياء التراث العربي)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"والأكثر على أن الأمر للندب، قيل: إنها تكون بعد الدخول، وقيل: عند العقد، وقيل: عندهما واستحب أصحاب مالك أن تكون سبعة أيام".

(كتاب النكاح، باب الوليمة، 5/ 2104، ط: دار الفكر)

کفایت المفتی میں ہے:

" ولیمہ کی دعوت مسنون ہے۔ مگر وہ دولہا والوں کی طرف سے زفاف کی صبح کو ہوتی ہے۔ ۔۔ بعض روایات سے ثابت ہے کہ ام حبیبہ  رضی اللہ عنہا  کا نکاح حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نجاشی  کی موجودگی میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کیا تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی  طرف سے مہر کے چار سو دینار نجاشی نے دیے اور ولیمہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کھلایا۔ بہر حال یہ کھانا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بطور ولیمہ کے دیا گیا ہے۔ بیٹی والوں کی طرف سے نہیں تھا۔ زیادہ سے زیادہ کہ زفاف سے پہلے دیا گیا ہے ۔ تو اس کا مضائقہ نہیں ۔ کیونکہ ولیمہ دولہا کی طرف سے عقد کے وقت زفاف سے پہلے دیئے جانے کے بھی بعض علماء قائل ہیں ، گو جماہیر علماء کے نزدیک زفاف کے بعد ہوتا ہے"۔ 

(کفایت المفتی بتغییر یسیر، کتاب النکاح، نوان باب: دعوتِ ولیمہ وغیرہ5/156-157، ط: دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508100428

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں