بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

رخصتی سے پہلے ولیمہ


سوال

کیا نکاح کے بعد رخصتی سے پہلے ولیمہ کرنا صحیح ہے اسکی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب

ولیمہ کا  کھانا اس کھانے کو کہا جاتا ہے جو میاں بیوی کے  اکٹھے ہونے یعنی شبِ زفاف  کے بعد  دوسرے دن کھلایا جاتا ہے؛  اس لیے  بہتر اور افضل یہی ہے کہ رخصتی کے بعد میاں بیوی کی ملاقات کے بعد ولیمہ کیا جائے، یہی مسنون ہے،  اگرچہ رخصتی سے پہلے ولیمہ کرلینے سے بھی بعض علماء کے تزدیک نفسِ  ولیمہ کی سنت ادا ہوجاتی ہے، مگر جمہور علماء کے نزدیک زفاف کے بعد ہوتا ہے۔

         حدیث مبارک میں ہے:

"وعن أنس قال: أولم رسول الله صلى الله عليه وسلم حين بنى بزينب بنت جحش فأشبع الناس خبزاً ولحماً. رواه البخاري".

(مشکاۃ المصابیح، كتاب النكاح، باب الوليمة، الفصل الاول، رقم الحديث:3212، 278/2،  ط: قدیمی)

         فیض الباری  شرح صحيح البخاري میں ہے:

"السنة في الولیمة أن تکون بعد  البناء، وطعام ماقبل البناء لا یقال له ولیمة عربیة".

( كتاب النكاح،باب الولیمۃ حق، 534/5، ط: دار الکتب العلمیہ)

       اعلاء السنن میں ہے:

"والمنقول من فعل النبي صلی الله علیه وسلم أنها بعد الدخول، کأنه یشیر إلی قصة زینب  بنت جحش، وقد ترجم علیه البیهقي بعد الدخول،..... وحدیث أنس  في هذا الباب صریح في أنها  الولیمة بعد الدخول". 

(اعلاء السنن،كتاب النكاح، باب استحباب الولیمۃ، 11/11 ط: ادارۃ القرآن) 

بذل المجہود میں ہے:

"یجوز أن یؤلم بعد النکاح، أو بعد الرخصة، أو بعد أن یبني بها، والثالث هو الأولی".

(بذل المجهود، کتاب الأطعمة، باب في استحباب الولیمة للنکاح، تحت رقم الحدیث : 3743 ،471/11، ط: دارالبشائر الإسلامیة بیروت ) 

فقہ السنۃ میں ہے:

"وقت الولیمة عند العقد، أو عقبه، أو عند الدخول، أو عقبه، وهذا أمر یتوسع فیه حسب العرف والعادة، وعند البخاري أنه صلی اﷲ علیه وسلم دعا القوم بعد الدخول بزینب".

(فقه السنة،  الوليمة، 236/2، دارالكتاب العربي)

الفقہ علی مذاہب الاربعۃ میں ہے:

"وقت وليمة العرس حين البناء، وتستمر الدعوة إلى الطعام بعد البناء واليوم الذي بعده ثم ينقطع العرس والوليمة."

(الفقه علي مذاهب الاربعة، كتاب الحظر والاباحة، الوليمة، 34/2، ط: دارالفكر)

رد المحتار میں ہے:

"(قوله دعي إلى وليمة) وهي ‌طعام ‌العرس وقيل الوليمة اسم لكل طعام."

( رد المحتار على الدر المختار، كتاب الحظر والإباحة، 347/6، سعيد)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"ولا بأس بأن يدعو يومئذ من الغد وبعد الغد، ثم ينقطع العرس والوليمة، كذا في الظهيرية."

( الفتاوى الهندية، كتاب الكراهية،  الباب الثاني عشر في الهدايا والضيافات،343/5، رشيدية)

امداد الاحکام میں ہے:

’’ ولیمہ مشہور قول میں تو اسی دعوت کا نام ہے جو شبِ زفاف ودخول کے بعد ہو. اور بعض اقوال سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نکاح کے وقت سے دخول کے بعد تک جو بھی دعوت ہو ولیمہ ہی ہے، مگر راجح قول اوّل ہے؛ کیوں کہ رسول اللہ ﷺ سے  ولیمہ بعد الدخول ہی ثابت ہے‘‘۔

(4/291 ، ط: مکتبہ دارالعلوم کراچی) 

کفایت المفتی میں ہے:

"ولیمے کی دعوت مسنون ہے ،مگر وہ دولہا والوں کی طرف سے زفاف کی صبح کو ہوتی ہے، ۔۔۔ بعض روایات سے ثابت ہے کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نجاشی کی موجودگی میں حضرت عثمان نے کیا تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مہر کے چار سو دینار نجاشی نے دیئے اور ولیمہ حضرت عثمان نے کھلایا، یہ کھانا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بطور ولیمہ کے دیا گیا اور زفاف سے پہلے دیا گیا تو اس کا مضائقہ نہیں،  کیوں کہ ولیمہ دولہا کی طرف سےعقد کے وقت زفاف سے پہلے دیئے جانے کے بھی بعض علماء قائل ہیں، گو جماھیر علماء کے نزدیک زفاف کے بعد ہوتا ہے۔"

(کفایت المفتی، 157،156/5، ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100548

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں