بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رخصتی سے پہلے تین طلاق دینے کا حکم


سوال

نکاح کے بعد رخصتی سے پہلے تین طلاق دےدیں،ایسے کہ"میں تمہیں طلاق دیتا ہوں،طلاق دیتا ہوں ،طلاق دیتا ہوں"،یہ ایک ہی سانس میں کہا تھا،اور اسی طرحڈیوارس پیپر پر الگ الگ لکھا تھا، اُس پر سائن کیا تھا،تو کیا   حلالہ کے بغیر دوبارہ نکاح کر سکتے ہے؟ہم ایسی تنہائی میں نہیں ملے جس میں ہم بستری کر سکیں،باہر اکیلے کھانے کے لیے گئے تھے،لیکن پبلک جگہ  میں تھے،اور گھر میں اکیلے بیٹھے تھے، تب بھی دروازہ کھلا تھااور گھر میں سب موجود تھے،اور بینکو ئیٹ ہال کی برائڈل روم میں سات سے آٹھ منٹ کے لیے اکیلے بیٹھے تھے،دروازہ بند کیا تھا،لیکن لاک نہیں کیا تھا،اور یہ ڈر تھا کہ کبھی بھی کوئی ا سٹیج پر بلانے آجائےگا،اور شاید بیوی حالتِ حیض میں تھی۔

جواب

واضح  رہے کہ اگر نکاح کے بعد میاں بیوی تنہائی میں ملاقات کریں اور ہم بستری کے لیے کسی قسم کا کوئی مانع موجود نہ ہو تو یہ تنہائی "خلوتِ صحیحہ" کہلاتی ہے، اس کے بعد دی جانے والی تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں،  لیکن اگر تنہائی میں ملاقات کے باوجود   بیوی سے ہم بستری کے لیے کوئی مانع ہو  تو یہ  تنہائی "خلوتِ صحیحہ" نہیں ہے،  اور اگر تین الگ الگ جملوں میں طلاق دی ہو تو ایک طلاق سے بیوی بائن ہوکر اجنبیہ ہوجاتی ہے،جس کی وجہ سے  بیوی پر بقیہ دونوں طلاقیں واقع نہیں ہوتیں۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً سائل کا اپنی بیوی سےتنہائی میں ملاقات کے باوجود   بیوی سے ہم بستری کے لیے کوئی مانع ہو  تو یہ  تنہائی "خلوتِ صحیحہ" نہیں ہے، لہذا اس کے بعد  جب سائل نے اپنی بیوی کو تین علیحدہ جملوں میں طلاقیں دیں تو سائل کی بیوی پر ایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی تھی،  نکاح ختم ہو گیا ہے،اب اگر دونوں  ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو دو گواہوں کی موجودگی میں  نیامہرمقرر کرکےدوبارہ نکاح کرسکتے ہیں ، نکاح کی صورت میں آئندہ کے لیے سائل  کےپاس  دو طلاق کا اختیار ہوگا۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"(والخلوة) مبتدأ خبره قوله الآتي كالوطء (بلا مانع حسي) كمرض لأحدهما يمنع الوطء (وطبعي) كوجود ثالث عاقل ذكره ابن الكمال، وجعله في الأسرار من الحسي، وعليه فليس للطبعي مثال مستقل (وشرعي) كإحرام لفرض أو نفل. (و) من الحسي (رتق) بفتحتين: التلاحم (وقرن) بالسكون: عظم (وعفل) بفتحتين: غدة (وصغر) ولو بزوج (لا يطاق معه الجماع....(قوله فليس للطبعي مثال مستقل) فإنهم مثلوا للطبعي بوجود ثالث وبالحيض أو النفاس مع أن الأولى منهي شرعا وينفر الطبع عنه فهو مانع حسي طبعي شرعي، والثاني طبعي شرعي، نعم سيأتي عن السرخسي أن جارية أحدهما تمنع بناء على أنه يمتنع من وطء الزوجة بحضرتها طبعا مع أنه لا بأس به شرعا، فهو مانع طبعي لا شرعي، لكنه حسي أيضا فافهم."

(کتاب النکاح، باب المهر،مطلب فی حط المهر والبراءمنه، ج:3، ص:114، ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(الفصل الرابع في الطلاق قبل الدخول) إذا طلق الرجل امرأته ثلاثا قبل الدخول بها وقعن عليها فإن فرق الطلاق بانت بالأولى ولم تقع الثانية والثالثة وذلك مثل أن يقول أنت طالق طالق طالق۔"

(کتاب النکاح، الباب الثاني في إيقاع الطلاق، الفصل الرابع في الطلاق قبل الدخول، ج:1، ص:373، ط: رشيدیة)

و فیہ ایضاً:

"والخلوة الصحیحة أن يجتمعا في مكان ليس هناك مانع يمنعه من الوطء حسا أوشرعا اوطبعا، كذا فی فتاوى قاضي خان."

(کتاب النکاح، الباب السابع فی المهر،الفصل الثاني فیما یتأکد به المهر،ج:1، ص:403، ط: رشيدیة)

بدائع الصنائع میں ہے:

"فإن كانا حرين فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة، والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق، وزوال الملك أيضا حتى لا يحل له وطؤها إلا بنكاح جديد۔"

( کتاب الطلاق، فصل في شرائط رجوع المبتوتة لزوجها، ج:3، ص:187، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144506102634

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں