بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رخصتی سے پہلے طلاق کے بعد لڑکا اور لڑکی کا دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح کا ایجاب وقبول کرلینا


سوال

لڑکا لڑکی میں رخصتی سے پہلے ایک طلاق ہوئی تھی، دونوں کے ماں باپ کو نہیں پتا تھا،  رخصتی والے دن لڑکے نے لڑکی کو کہا کہ آپ سے نکاح کرنا چاہتا ہوں اور لڑکی نے کہا: قبول ہے، تو  کیا نکاح ہوگیا اس موقع پر؟ لڑکے کے دو بالغ بھائی ساتھ  تھے جن کو گواہ بنا کر دوبارہ نکاح کیا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب نکاح کے بعد رخصتی (خلوتِ صحیحہ) سے پہلے شوہر نے بیوی کو ایک طلاق دے دی تو  اس سے بیوی پر ایک طلاقِ بائن واقع ہوکر نکاح ختم ہوگیا، بعد ازاں رخصتی کے وقت جب لڑکا اور لڑکی دونوں نے لڑکے کے دو عاقل بالغ بھائیوں کی موجودگی میں نکاح کا ایجاب وقبول کرلیا تو اس سے ان کا نکاح منعقد ہوگیا، اب اگر اس نکاح میں مہر طے ہوا تھا تو شوہر پر یہ مہر بھی لازم ہوگا، اور اگر  مہر طے نہیں ہوا ہو تو  پھر لڑکے پر اس نئے نکاح کی صورت میں لڑکی کا مہر مثل دینا لازم ہوگا یعنی  اس لڑکی کے باپ کے خاندان کی وہ لڑکیاں جو مال، جمال، دین، عمر، عقل، زمانہ، شہر، بکارت، ثیبہ وغیرہ  ہونے میں اس کے برابر ہوں، ان کا جتنا مہر  تھا اس کا بھی اتنا مہر  ہوگا۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"إذا طلق الرجل امرأته ثلاثًا قبل الدخول بها وقعن عليها، فإن فرق الطلاق بانت بالأولى ولم تقع الثانية والثالثة، وذلك مثل أن يقول: أنت طالق طالق طالق، وكذا إذا قال: أنت طالق واحدة وواحدة، وقعت واحدة، كذا في الهداية". 

(1/373، الفصل الرابع في الطلاق قبل الدخول، ط؛رشیدیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"كتزوجيني نفسك إذا لم ينو الاستقبال،وكذا أنا متزوجك أو جئتك خاطبا لعدم جريان المساومة في النكاح  أو هل أعطيتنيها إن المجلس للنكاح، وإن للوعد فوعد.

(قوله: إذا لم ينو الاستقبال) أي الاستيعاد أي طلب الوعد وهذا قيد في الأخير فقط كما في البحر وغيره. وعبارة الفتح لما علمنا أن الملاحظة من جهة الشرع في ثبوت الانعقاد ولزوم حكمه جانب الرضا عدينا حكمه إلى كل لفظ يفيد ذلك بلا احتمال مساو للطرف الآخر فقلنا لو قال بالمضارع ذي الهمزة أتزوجك فقالت زوجت نفسي انعقد وفي المبدوء بالتاء تزوجني بنتك فقال فعلت عند عدم قصد الاستيعاد؛ لأنه يتحقق فيه هذا الاحتمال بخلاف الأول؛ لأنه لا يستخبر نفسه عن الوعد، وإذا كان كذلك والنكاح مما لا يجري فيه المساومة كان للتحقيق في الحال فانعقد به لا باعتبار وضعه للإنشاء، بل باعتبار استعماله في غرض تحقيقه، واستفادة الرضا منه حتى قلنا: لو صرح بالاستفهام اعتبر فهم الحال قال في شرح الطحاوي: لو قال هل أعطيتنيها فقال أعطيت إن كان المجلس للوعد فوعد، وإن كان للعقد فنكاح. اهـ. (قوله: وكذا أنا متزوجك) ذكره في الفتح بحثا حيث قال والانعقاد بقوله أنا متزوجك ينبغي أن يكون كالمضارع المبدوء بالهمزة سواء. اهـ.قال ح: لأن متزوج اسم فاعل وهو موضوع لذات قام بها الحدث وتحقق في وقت التكلم فكان دالا على الحال، وإن كانت دلالته عليه التزامية.
(قوله: أو جئتك خاطبًا) قال في الفتح: ولو قال باسم الفاعل :كجئتك خاطبا ابنتك أو لتزوجني ابنتك فقال الأب زوجتك فالنكاح لازم وليس للخاطب أن لا يقبل لعدم جريان المساومة فيه اهـ.قال ح: فإن قلت: إن الإيجاب والقبول في هذا ماضيان فلا معنى لذكره هنا: قلت: المعتبر قوله: خاطبا لا قوله: جئتك؛ لأنه لا ينعقد به النكاح ولا دخل له فيه (قوله:؛ لعدم جريان المساومة في النكاح) احترز به عن البيع، فلو قال أنا مشتر أو جئتك مشتريا لا ينعقد البيع لجريان المساومة فيه ط (قوله: أن المجلس للنكاح) أي لإنشاء عقده لأنه يفهم منه التحقيق في الحال فإذا قال الآخر أعطيتكها أو فعلت لزم وليس للأول أن لا يقبل". 

(3/11،12، کتاب النکاح، ط؛ سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200935

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں