بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح کے بعد رخصتی میں تاخیر / رخصتی سے پہلے میاں بیوی کی بات چیت اور میل ملاقات


سوال

 نکاح ہوجانے کے بعد کتنے وقت تک رخصتی میں تاخیر کی جا سکتی ہے؟ اور یہ کہ میاں ‌بیوی آپس میں بات کر سکتے رومانوی باتیں؟ اور کیا مل سکتے ہیں پارک وغیرہ میں، کھانے پینے جا سکتے؟ اور رخصتی سے قبل کن‌ حدود کا خیال رکھا جائے؟ اور‌ کیا لڑکی کے لیے شوہر کی اجازت سے بغیر دوپٹہ بات کی جا سکتی video call پر؟

جواب

نکاح ہونے کے بعد حتی الامکان رخصتی میں بلا وجہ تاخیر نہیں کرنی چاہیے، کیوں کہ شریعتِ مطہرہ میں بالغ ہونے کے بعد جلد نکاح کرنے کے جو مقاصد ہیں (مثلاً عفت و پاک دامنی کا حصول) وہ رخصتی سے ہی حاصل ہو سکتے ہیں، البتہ کسی معقول عذر (مثلاً رہائش کا انتظام نہ ہونے  وغیرہ) کی بنا  پراگر رخصتی میں کچھ تاخیر ہوجائے تو اس میں شرعاً حرج نہیں ہے۔

اور نکاح کے بعد لڑکا اور لڑکی دونوں کی حیثیت ایک دوسرے کے لیے شوہر اور بیوی کی ہے،  چاہے رخصتی نہ  ہوئی ہو، اس لیے شرعاً  کسی بھی قسم کا تعلق رکھنا منع نہیں ہے، البتہ بہتر یہ ہے کہ رخصتی سے پہلے ایسے تعلقات سے پرہیز کیا جائے جو خاندان اور معاشرے میں نکاح سے پہلے معیوب سمجھے جاتے ہوں، کیوں کہ بعض اوقات رخصتی سے پہلے بے تکلف  تعلقات سے بہت سے مفاسد پیدا ہوجاتے ہیں۔

باقی ویڈیو کال  کے ذریعے بات چیت میں چوں کہ جان دار کی تصویر بنتی ہے، اس لیے ویڈیو کال پر بات کرنا جائز نہیں ہے، نیز میاں بیوی کو فون پر جنسی تعلق کی باتیں کرنے سے بھی اجتناب  کرنا چاہیے، اس لیے رخصتی سے پہلے اس طرح کے تعلق کے بعد رخصتی کے بعد کی زندگی میں اکثر اختلافات اور جھگڑے ہو جاتے ہیں اور  ٹیکنالوجی کے اس دور میں نجی کالز اور ذاتی میسجز  بھی ریکارڈ ہوتے ہیں، اور کمپنیوں کے کال سینٹرز   اور آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ میں بعض اوقات اخلاقی لحاظ سے کم زور انسان تعینات ہوتے ہیں، اس لیے پیش بندی کے طور پر  فون پر بالخصوص رخصتی سے پہلے  جنسی باتیں کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

صحيح البخاري (7/ 3):

" حدثنا عمر بن حفص بن غياث، حدثنا أبي، حدثنا الأعمش، قال: حدثني عمارة، عن عبد الرحمن بن يزيد، قال: دخلت مع علقمة، والأسود على عبد الله، فقال عبد الله: كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم شباباً لانجد شيئاً، فقال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يا معشر الشباب، من استطاع الباءة فليتزوج، فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج، ومن لم يستطع فعليه بالصوم فإنه له وجاء»".

سنن الترمذي ت بشار (1/ 238):

"حدثنا قتيبة، قال: حدثنا عبد الله بن وهب، عن سعيد بن عبد الله الجهني، عن محمد بن عمر بن علي بن أبي طالب، عن أبيه، عن علي بن أبي طالب، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال له: يا علي، ثلاث لاتؤخرها: الصلاة إذا آنت، والجنازة إذا حضرت، والأيم إذا وجدت لها كفئاً".

فتاوی عالمگیری  (1/270):

"ينعقد بالإيجاب والقبول وضعًا للمضي أو وضع أحدهما للمضي والآخر لغيره مستقبلًا كان كالأمر أو حالًا كالمضارع، كذا في النهر الفائق. فإذا قال لها: أتزوجك بكذا، فقالت: قد قبلت يتم النكاح وإن لم يقل الزوج قبلت، كذا في الذخيرة".

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144203200135

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں