بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

رخصتی سے پہلے تین مرتبہ میں نے طلاق دی کہنے سے ایک طلاقِ بائن واقع ہوئی


سوال

میری بیٹی کا نکاح ہوا رخصتی سے قبل شوہر نے تین طلاقیں دیں اور یہ الفاظ کہے" میں نے طلاق دی میں نے طلاق دی میں نے طلاق دی" اب کتنی طلاقیں واقع ہوئیں؟ اور دوبارہ ساتھ رہنے کا شرعی طریقہ بتائیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں نکاح کے بعد اگر   میاں بیوی کے درمیان خلوت صحیحہ نہ ہوئی ہو تو شوہر کے ان الگ الگ  الفاظ سےکہ "میں نے طلاق دی میں نے طلاق دی میں نے طلاق دی" بیوی پر پہلی  طلاق واقع ہو گئی اور طلاق واقع ہوتے ہی بیوی شوہر کی زوجیت سے نکل گئی اور بعد کی دونوں طلاقیں لغو  ہوگئیں، اور شوہر پر آدھا مہر ادا کرنا بھی لازم ہو گیا، اب اگر دونوں دوبارہ ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو شرعی گواہان کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ ایجاب و قبول کر کے نکاح کر سکتے ہیں ، دوبارہ نکاح کرنے کی صورت میں اب شوہر کے پاس دو طلاقوں کا اختیار باقی رہے گا۔

خلوتِ صحیحہ سے مراد میاں بیوی کے درمیان  ایسی تنہائی ہے کہ جہاں ازدواجی تعلق قائم کرنے سے کوئی حسی، طبعی یا شرعی عذر  مانع نہ ہو ۔

فتاوی شامی میں ہے:

«(و) يجب (نصفه بطلاق قبل وطء أو خلوة) فلو كان نكاح على ما قيمته خمسة كان لها نصفه ودرهمان ونصف بمجرد الطلاق إذا لم يكن مسلما لها، 

(قوله ويجب نصفه) أي نصف المهر المذكور، وهو العشرة إن سماها أو دونها أو الأكثر منها إن سماه

(‌‌باب المهر،3/ 104،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

(والخلوة) مبتدأ خبره قوله الآتي كالوطء (بلا مانع حسي) كمرض لأحدهما يمنع الوطء (وطبعي) كوجود ثالث عاقل ذكره ابن الكمال...(وشرعي) كإحرام لفرض أو نفل. (و) من الحسي (رتق) بفتحتين: التلاحم (وقرن) بالسكون: عظم (وعفل) بفتحتين: غدة (وصغر) ولو بزوج (لا يطاق معه الجماع...(كالوطء) فيما يجيء (ولو) كان الزوج (مجبوبا أو عنينا أو خصيا) ...(في ثبوت النسب) ولو من المجبوب (و) في (تأكد المهر) المسمى (و) مهر المثل بلا تسمية و (النفقة والسكنى والعدة وحرمة نكاح أختها وأربع سواها) في عدتها (وحرمة نكاح الأمة ومراعاة وقت الطلاق في حقها) وكذا في وقوع طلاق بائن آخر على المختار

(قوله وكذا في وقوع طلاق بائن آخر إلخ) في البزازية: والمختار أنه يقع عليها طلاق آخر في عدة الخلوة، وقيل لا اهـ وفي الذخيرة: وأما وقوع طلاق آخر في هذه العدة فقد قيل لا يقع وقيل يقع، وهو أقرب إلى الصواب لأن الأحكام لما اختلفت يجب القول بالوقوع احتياطا، ثم هذا الطلاق يكون رجعيا أو بائنا ذكر شيخ الإسلام أنه يكون بائنا اهـ ومثله في الوهبانية وشرحها.

والحاصل أنه إذا خلا بها خلوة صحيحة ثم طلقها طلقة واحدة فلا شبهة في وقوعها، فإذا طلقها في العدة طلقة أخرى فمقتضى كونها مطلقة قبل الدخول أن لا تقع عليها الثانية، لكن لما اختلفت الأحكام في الخلوة في أنها تارة تكون كالوطء وتارة لا تكون جعلناها كالوطء في هذا فقلنا بوقوع الثانية احتياطا لوجودها في العدة، والمطلقة قبل الدخول لا يلحقها طلاق آخر إذا لم تكن معتدة بخلاف هذه

(أيضاً،مطلب في أحكام الخلوة،3/ 114)

وفیہ ایضاً:

«(قال لزوجته غير المدخول بها أنت طالق)... (ثلاثا)...(وقعن) لما تقرر أنه متى ذكر العدد كان الوقوع به...(وإن فرق) بوصف أو خبر أو جمل بعطف أو غيره (بانت بالأولى) لا إلى عدة (و) لذا (لم تقع الثانية)  بخلاف الموطوءة حيث يقع الكل

(قوله وإن فرق بوصف) نحو أنت طالق واحدة وواحدة وواحدة، أو خبر نحو: أنت طالق طالق طالق، أو أجمل نحو: أنت طالق أنت طالق أنت طالق ح، ومثله في شرح الملتقى.

(قوله لم تقع الثانية) المراد بها ما بعد الأولى، فيشمل الثالثة

(قوله بخلاف الموطوءة) أي ولو حكما كالمختلى بها فإنها كالموطوءة في لزوم العدة، وكذا في وقوع طلاق بائن آخر في عدتها، وقيل لا يقع والصواب الأول

(‌‌‌‌كتاب الطلاق،باب طلاق غير المدخول بها،3/ 286)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100575

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں