بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رخصتی سے پہلے منگیتر کو دل میں یاد کرنا اور تحائف بھجوانا


سوال

میری منگنی اپنے خاندان میں ہوئی ہے،  جب منگنی ہو گئی تو شروع میں میں کچھ زیادہ خوش نہیں تھا اور لڑکی بھی گھبرائی ہوئی تھی؛ کیوں کہ ایک تو وہ مجھ سے عمر میں تقریباً 9 سال چھوٹی ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ اس نے مجھے دیکھا نہیں تھا اور نہ ہی میں نے ابھی تک اس کو دیکھا ہے، صرف ایک بار دیکھا تھا، لیکن اس وقت وہ چھوٹی تھی وہ بھی صرف ایک نظر۔  پھر کچھ یوں ہوا کہ جب میں گاؤں چلا گیا جب اس نے مجھے دیکھا تو اس کو میں پسند آیا (اس کی امی نے مجھے بتایا) اور میرا بھی قدرتی طور پر اس کے ساتھ دل لگ گیا، حال آں کہ میری نہ اس کے ساتھ بات ہوئی ہے اور نہ ہی اس کو دیکھا ہے۔ ہاں ایک دوسرے کو تحائف دیتے ہیں۔

ابھی میرا مسئلہ یہ ہے کہ مجھے اس کی بہت یاد آتی ہے اور وہ بھی مجھے بہت یاد کرتی ہے۔ تو ایک دوسرے کو دلوں میں یاد کرنے پر ہم گناہ گار تو نہیں ہوں گے؟ فون وغیرہ پر باتیں کرنا یا ایک دوسرے کو دیکھنا کچھ بھی نہیں کرتے ہیں، صرف دلوں میں یاد کرتے ہیں۔

میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ وہ لڑکی بچپن سے بڑی دِین دار ہے، منگنی کے بعد جب میرا دل اس کے ساتھ لگ گیا تو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بھی رحم کیا اور میں نے بھی تقریباً تمام غلط کام چھوڑ دیے، جیسا کہ غیر محرم عورتوں کو دیکھنا، میوزک سننا، غیبت کرنا، فلمیں وغیرہ دیکھنا اور دوسرے بڑے بڑے گناہ کبیرہ وغیرہ اور میں رمضان کے مہینہ میں اعتکاف میں بھی بیٹھا۔ اب میں قرآن کی تلاوت بھی کرتا ہوں، نماز بھی باجماعت پڑھتا ہوں تقریباً زیادہ تر اوقات اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا رہتا ہوں، فضول لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا سب کچھ تقریباً چھوڑ چکا ہوں اور محسوس ہو رہا ہے کہ میرے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہوگئی ہے؛ کیوں کہ میں پہلے اتنا خوش، بلند حوصلہ اور مضبوط دل کا مالک نہیں تھا جتنا اب ہوں۔ لیکن اب میرا مسئلہ یہ ہے کہ میرے ذہن میں کبھی کبھار غلط وسوسے پیدا ہوتے ہیں جس کی وجہ سے میں پھر عبادت میں مزہ محسوس نہیں کرتا ہوں، حال آں کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے پکا وعدہ کیا ہے کہ یا اللہ اگر آپ مجھے کچھ دیں یا نہ دیں، زندگی میں میرے اوپر جس قسم کے حالات بھی پیدا کریں تو پھر بھی میں آپ کے احکامات سے بغاوت نہیں کروں گا؛ کیوں کہ آپ ہی میرے خالق ہیں اور ایک دن ہم آپ کے سامنے کھڑے ہوں گے جو بہت سخت دن ہوگا تو کیا یہ وسوسے شیطانی اثرات ہو سکتے ہیں اور مجھے اب کیا کرنا چاہیے؟

میرا تیسرا سوال یہ ہے کہ جب میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت سے کرتا ہوں تو میرے دل کو بہت خوشی محسوس ہوتی ہے، میں ایسا ہوتا ہوں جیسا کہ چھوٹا بچہ، بلکہ اس سے بھی زیادہ خوشی نصیب ہوتی ہے۔ پھر اکثر خوشی اتنی شدت اختیار کرتی ہے کہ مجھ سے بالکل برداشت نہیں ہوتا ہے، پھر مجھے اچانک ڈر سا لگتا ہے، دل کی دھڑکن تیز ہوتی ہے، سوچ آجاتی ہے کہ بس میں ابھی مر جاؤں گا، کل جب نماز پڑھا رہا تھا تو دل کو اتنا سکون ملا کہ مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا تھا، بس سوچ آئی کہ بس ابھی نماز سے فارغ ہوتے ہی میں مر جاؤں گا، پھر جب نماز سے فارغ ہوا باہر نکلا تو اچانک آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، گھر آتے آتے راستے میں رو بھی رہا تھا اور خوشی بھی محسوس ہو رہی تھی؟ براۓ مہربانی اس حوالے سے بھی مجھے کچھ بتائیں!

جواب

منگنی نکاح کا وعدہ ہے، نکاح نہیں ہے، منگنی کرنے کے بعد  منگیتر  بھی دیگر اجنبی لڑکیوں کی طرح نامحرم ہی ہوتی ہے، اور نامحرم لڑکی سے  تعلقات رکھنا، ملنا جلنا، ہنسی مذاق   یا بغیر ضرورت بات چیت  کرنا اور دل میں اس کا خیال لانا اور یاد کرنا، یا نامحرم کے بارے میں سوچنا وغیرہ جائز نہیں ہے۔

1-  لہٰذا سائل اور اس کی منگیتر کا ایک دوسرے کو یاد کرنا جائز نہیں  ہے۔ دونوں کو چاہیے کہ آئندہ ایسا نہ کریں، اور توبہ و استغفار کریں۔ البتہ پردہ وغیرہ احکام کی رعایت رکھتے ہوئے خاندان کے بڑوں کے ذریعہ تحائف بھجوانے کی اجازت ہے۔ اور اگر کوئی معتبر شرعی عذر نہیں ہے تو نکاح و رخصتی میں تاخیر نہ کریں۔

2، 3- اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہوجانا اور گناہ چھوڑنا بہت ہی مبارک بات ہے۔ نیز نفلی عبادات کی کثرت بلاشبہ نیکی ہے، لیکن اس کی مقدار اور اس سے پیدا ہونے والی کیفیات سے کبھی بھی عمل کرنے والے کو دھوکا نہیں کھانا چاہیے، کیفیات اور نفس کی تسکین عبادات میں مقصود نہیں ہیں، بلکہ عبادات کی روح اتباع اور رضائے خداوندی ہے، خواہ اس میں دل لگے یا نہیں؛ اس لیے ضروری ہے کہ سائل اس سلسلے میں کسی متبعِ سنت و شریعت عالم یا اللہ والے کی خدمت میں جا کر اپنے احوال ان کے سامنے پیش کرے اور ان کے مشورے پر عمل کرنے کی کوشش کرے۔ 

فتاویٰ شامی میں ہے:

"الثالث: ذكر بعض الشافعية أنه كما يحرم النظر لما لايحل يحرم التفكر فيه لقوله تعالى: {ولا تتمنوا ما فضل الله به بعضكم على بعض} [النساء: 32]- فمنع من التمني كما منع من النظر، وذكر العلامة ابن حجر في التحفة أنه ليس منه ما لو وطئ حليلته متفكرا في محاسن أجنبية حتى خيل إليه أنه يطؤها، ونقل عن جماعة منهم الجلال السيوطي والتقي السبكي أنه يحل لحديث «إن الله تجاوز لأمتي ما حدثت به أنفسها» ولا يلزم من تخيله ذلك عزمه على الزنا بها، حتى يأثم إذا صمم على ذلك لو ظفر بها، وإنما اللازم فرض موطوءته تلك الحسناء، وقيل ينبغي كراهة ذلك ورد بأن الكراهة لا بد لها من دليل وقال ابن الحاج المالكي: إنه يحرم لأنه نوع من الزنا كما قال علماؤنا فيمن أخذ كوزا يشرب منه، فتصور بين عينيه أنه خمر فشربه أن ذلك الماء يصير حراما عليه اهـ ورد بأنه في غاية البعد ولا دليل عليه اهـ ملخصا ولم أر من تعرض للمسألة عندنا وإنما قال في الدرر: إذا شرب الماء وغيره من المباحات بلهو وطرب على هيئة الفسقة حرم اهـ والأقرب لقواعد مذهبنا عدم الحل، لأن تصور تلك الأجنبية بين يديه يطؤها فيه تصوير مباشرة المعصية على هيئتها، فهو نظير مسألة الشرب ثم رأيت صاحب تبيين المحارم من علمائنا نقل عبارة ابن الحاج المالكي، وأقرها وفي آخرها حديث عنه صلى الله عليه وسلم: «إذا شرب العبد الماء على شبه المسكر كان ذلك عليه حراما» اهـ. فإن قلت: لو تفكر الصائم في أجنبية حتى أنزل لم يفطر فإنه يفيد إباحته؟ قلت: لا نسلم ذلك فإنه لو نظر إلى فرج أجنبية حتى أنزل لا يفطر أيضا مع أنه حرام اتفاقا".

(فصل في النظر واللمس، ج:6، ص:372، ط:دار الفكر-بيروت)

وفيه أيضًا:

"(خطب بنت رجل وبعث إليها أشياء ولم يزوجها أبوها فما بعث للمهر يسترد عينه قائما) فقط وإن تغير بالاستعمال (أو قيمته هالكا) لأنه معاوضة ولم تتم فجاز الاسترداد (وكذا) يسترد (ما بعث هدية وهو قائم دون الهالك والمستهلك) لأنه في معنى الهبة".

(مطلب أنفق على معتدة الغير، ج:3، ص:153، ط:دار الفكر-بيروت)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"رجل خطب ابنة رجل فقال أبو البنت: بلى إن كنت تنقد المهر إلى ستة أشهر أو إلى سنة أزوجها منك ثم إن الرجل بعد ذلك بعث بهدايا إلى بيت الأب ولم يقدر على أن ينقد المهر فلم يزوج ابنته منه هل له أن يسترد ما بعث للمهر؟ . قالوا: ما بعث للمهر وهو قائم أو هالك يسترد وكذا كل ما بعث هدية وهو قائم فأما الهالك والمستهلك فلا شيء له من ذلك".

 (الفصل السادس عشر في جهاز البنت، ج:1، ص:328، ط:دار الفكر-بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200022

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں